یہ شام غریباں نہیں، شام زینب ہے!


شام آئی، ڈھلی اور تاریک ہو گئی!

سورج اپنی روشنی پھیلانے پہ شرمندہ ہوتے ہوئے ڈوب گیا!

چاند نہیں نکلا!

 رات کی سیاہ تاریکی ہر طرف نگاہیں چراتے پھیلتی رہی!

رات جانتی تھی کہ وحشت و بربریت کا بازار گرم ہونے کو ہے!

جری مردوں کا ٹولہ اور نہتی عورتیں!

صحرا میں گڑے خیموں کو آگ لگا کے تماشا دیکھتے سرکش مرد اور جان بچاتی عورتیں اور بچے!

بچیوں کے منہ پہ طمانچے مارنے والے بہادر مرد اور کانوں سے کھینچی جانے والی بالیوں کے بعد بہتا خون!

چاروں طرف بکھرے لاشے اور چند تنہا عورتیں!

گھوڑے دوڑاتے، مسرت کے قہقہے لگاتے وحشی مرد!

یہ وہ منظر ہے جس پہ آج تک عرب کی سرزمين شرمندہ ہے!

کون تھیں یہ بہادر تن کے کھڑی ہونے والی عورتیں اور کون تھے یہ بدمست بزدل مرد!

یہ رسول کے گھر کی عورتیں ہیں، وہی رسول جس نے اسلام کی روشنی سے جہالت کے اندھیرے کو دور کیا مگر کیا واقعی جہالت کا اندھیرا چھٹا ؟

اور یہ مرد کلمہ گو مرد ہیں، اسلام کی وحدانیت پہ ایمان لا چکے ہیں۔ کلمے میں رسول کی نبوت کی گواہی دینے والے مرد اور اسی رسول کی اولاد کا تماشا بنانے والے مرد!

اس شام کو شام غریباں پکارنے والے اس شام کے ساتھ انصاف کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ شام، شام زینب کہلائے جانے کی حقدار ہے، شام غریباں نہیں!

یہ شام اسلام بلکہ دنیا کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کی مثال ہے۔ جہاں جیت کے نشے میں چور، لشکر عمر سعد (صحابی رسول سعد بن ابی وقاص کا فرزند) نے نہتی عورتوں اور بچوں کی خیمہ گاہوں کو جلا کے صحرا میں چراغاں کیا۔

تاریخ کہتی ہے کہ جب بہتر افراد قتل کیے جا چکے، تب فیصلہ ہوا کہ بہتر لاشوں کے سر کاٹے جائیں کہ یزید کے دربار میں پیش کرنے ہیں اور باقی ماندہ لاشوں پہ گھوڑے دوڑا کے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ نواسہ رسول اور جنت کا سردار زمین پہ کفن دفن کا حقدار بھی نہ ٹھہرا۔

نہیں معلوم ہم داعش اور طالبان کے سر کاٹنے کی بے حرمتی پہ اتنے حیران و پریشان کیوں تھے ؟ اس کے بانی تو صدیوں پہلے یزید اور عمر سعد نکلے۔

سر کاٹ کے گنے گئے تو اکہتر نکلے۔ بہترواں سر کہاں تھا آخر ؟ مشعلوں کی روشنی میں، زمین میں نیزے کی انیاں گاڑ کے آخر چھ ماہ کے علی اصغر کی لاش برآمد کر لی گئی اور بہترواں سر بھی گنتی میں شامل ہوا۔

اب گھوڑے دوڑے۔ ہزاروں سوار خوشی کے بدمست نعرے لگاتے اور لاشوں کو روندتے، ان کا قیمہ بناتے گئے۔ کیا چنگیز خان اور ہلاکو خان سے کسی بھی درجے میں کم تھے ہمارے کلمہ گو مسلمان!

میدان کارزار سے فراغت ہوگئی مگر دل میں بھڑکتی نفرت کی آگ ابھی کچھ اور مانگتی ہے۔ ابھی اس آگ کے شعلوں نے خیمے جلانے ہیں اور خیموں سے نکلتی رسالت کے گھر کی بیبیوں کا تماشا دیکھنا ہے۔

آگ لگی، ایک خیمے سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے اور پھر اور آگے۔ بیبیاں ایک خیمے سے دوسرے میں بھاگیں، دوسرے کو آگ لگی تو بچے سنبھالتی تیسرے میں منتقل ہوئیں اور پھر اور آگے اور آگے۔

اور وہ عمر رسیدہ عورت، جسے اپنے بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں اور صحابہ کا غم منانے کی فرصت بھی نہیں ملی۔ جس نے ابھی زمین و آسمان کے درمیان خون کی چادر تنی دیکھی ہے۔پیاروں کے لاشے دیکھے ہیں، تین دن کی بھوک اور پیاس ہے، عرب کے صحرا کی پیاس۔

زینب علی اور فاطمہ کی بیٹی ہے۔ عرب کے بہادر ترین شخص کی بہادر بیٹی، اب باقی بچے ہوئے لوگوں کی محافظ ہے۔ سو فیصلہ کیا کہ خیموں سے باہر نکلنا ہے، جان بچانی ہے۔

آپ اور کچھ بھی نہیں سوچیے۔ صرف ایک عورت کے اعصاب کا امتحان کا اندازہ لگائیے کہ اس سخت گھڑی میں اپنے پاؤں پہ نہ صرف کھڑی ہے بلکہ سوچ رہی ہے، ہمت اور عزم سے مقابلہ کر رہی ہے کسی بھی طرح کی بے بسی اور بے کسی کے بغیر۔

بیبیوں نے خیمے چھوڑ دیئے، باہر خون میں بھیگی ریت پہ آ کر بیٹھ گئیں۔ رات ہے، تاریکی ہے، جلتے خیمے ہیں، بچھڑنے والوں کا درد ہے اور آنکھ میں آنسو ہیں۔

جیتنے والے ابھی بھی مطمئن نہیں، انہیں مزید تماشا چاہیے۔ انہیں بیبیوں کی چادریں کی چاہ ہے، بچوں کے منہ طمانچوں سے لال کر نے ہیں اور ان بہادر عورتوں نے اسے برداشت کرنا ہے۔ اپنی وقتی کمزوری کو عظمت میں بدلنا ہے اور ان تماشا کرنے والوں کو رہتی دنیا تک قابل مذمت بنانا ہے۔

بچپن سے شام غریباں سن رہی ہوں اور جب ناصر جہاں پڑھتے تھے،

 ” گھبرائے گی زینب “

میں ہمیشہ سوچتی تھی، کیسے گھبرا سکتی ہے وہ عورت جو اس رات بھی قائم ہوش وحواس کے ساتھ بہادری سے حفاظت کر رہی ہے، فیصلے کر رہی ہے۔ کیسے گھبرا سکتی ہے زینب، جو یزید کے دربار میں پہروں اپنے پاؤں پہ تن کے کھڑی رہ سکتی ہے اور یزید پوچھنے پہ مجبور ہو جاتا ہے،

” کون ہے یہ مغرور عورت”

کیسے گھبرا سکتی ہے دربار شام میں اپنے خطبے سے لرزہ پیدا کر دینے والی زینب!

یہ شام زینب ہے، یہ شام عورت ہے۔ یہ زینب کی بہادری اور جیت کی شام ہے۔ اسلام کی تاریخ کی بدنما شام لیکن ایک عورت کی اعلیٰ جرات و کردار کی شام۔

 یہ شام رہتی دنیا تک ہر رنگ ونسل کی سب عورتوں کا سرمایہ اور فخر ہے۔

اے شام زینب ، تیری عظمت کو سلام!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).