میاں نواز شریف کس شرط پر ڈیل کریں گے؟


بیس نومبر 2018ء میاں نواز شریف العزیزیہ ریفرنس کی پیشی بھگتنے کے لیے احتساب عدالت میں موجود تھے۔ اسلام آباد کی فضاؤں میں ڈیل کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔ کمرہ عدالت میں میاں نواز شریف سے میں نے پوچھا، ڈیل کی باتیں چل رہی ہیں ان میں کتنی صداقت ہے؟ میاں نواز شریف قدرے توقف کے بعد بولتے ہیں،

کون سی ڈیل کیسی ڈیل؟ میرے پاس کھونے کو کیا ہے۔ میں کس بات پر ڈیل کروں؟ مجھے وزرات اعظمی سے فارغ کیا گیا، اس پر بھی اُنہیں چین نہ آیا تو پارٹی صدارت سے بھی فارغ کیا گیا۔ مجھے میری بیمار اہلیہ سے دور رکھا گیا۔ اُس کی عیادت کے لیے جانے نہیں دیا گیا۔ میں تو سب کچھ کھو چُکا ہوں۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے میری بیٹی عدالت کے کٹہرے میں کھڑی کی گئی۔ اب میرے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا۔

کچھ رک کر میاں نواز شریف نے ترنت مجھ سے پوچھا، آپ حسین شہید سہروردی کے بارے میں جانتے ہیں؟ اُس کے ساتھ کیا کیا گیا؟ اُن کا کیا قصور تھا یہی نہ کہ وہ آئین اور قانون کی سپرمیسی (بالادستی) کی بات کرتا تھا۔ اُسے پاکستان دشمن اور انڈین ایجنٹ قرار دیا گیا۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ یہاں جو قانون کی سپرمیسی کی بات کرتا ہے اُسے انڈین ایجنٹ اور وطن دشمن قرار دیا جاتا ہے ۔

میرے اجداد کی قبریں یہاں ہیں۔ تین بار اس مُلک کا وزیراعظم رہا ہوں۔ میں وطن دشمن کیسے ہو سکتا ہوں۔ انھوں نے مجھے حسین شہید سہروردی کی طرح فارغ تو کر دیا مگر میں مُلک چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔

حسین شہید سہروردی کو پہلے مسلم لیگ سے نکالا گیا، اور ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ وہ پاکستان میں داخل ہونے ہی نہ پائے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہاں کی نوکر شاہی کے نامزد گورنر جنرل مرحوم غلام محمد کو اپنے جوڑ توڑ کو مقبولِ عام بنانے کے لیے اسی سہروردی کے تعاون کی شدید ضرورت محسوس ہوئی، چنانچہ اس کو جنیوا سے بلا کر پاکستان کا وزیرِ قانون بنایا گیا۔ سکندر مرزا حسین شہید سہروردی کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے کچھ مہینوں کے لیے وزیرِ اعظم بھی بننے دیا گیا۔ آخر میں ایوب خان کا دور آیا اور اسی وزیرِاعظم کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ”ایبڈو“ کے تحت سیاست کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ اُنھیں کراچی کی جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا جب بنیادی جمہوریت کے انتخابات مکمل ہو گئے تو سہروردی کو 19 اگست 1962ء کو رہا کر دیا گیا تھا۔

اس قدر بے آبروئی کے بعد وہ غریب جان چھڑا کر ملک سے ہی باہر نکل گیا اور وہیں جا کر مرنا بھی منظور کر لیا۔ (اُن کی وفات کے عشروں بعد ان کی بیٹی بیگم اختر سلیمان کا اخباری انٹرویو شائع ہوا تھا جس میں یہ راز کھولا گیا ہے کہ سہروردی مرحوم طبعی موت نہیں مرے تھے، بلکہ انہیں نوکر شاہی نے مروایا تھا)۔

قارئین کو یاد ہو گا 2016 میں سابق سپہ سالار کی مدت ملازمت میں چند ماہ باقی تھے۔ اسلام آباد سمیت پورے ملک کی شاہراہوں پر “جانے کی باتیں جانے دو” کے بینرز آویزاں کیے گئے تھے یہ وہ دور تھا جب میاں نواز شریف کو کہا گیا کہ مدت ملازمت میں توسیع دی جائے اور آپ اگلی مدت کے لیے بھی حکومت کریں۔ مگر میاں نواز شریف نے آئین اور قانون کو مقدم رکھتے ہوئے توسیع دینے سے انکار کر دیا۔ میاں نواز شریف اس سے پہلے بھی ایک غلطی کر چُکے تھے کہ انھوں نے مشرف کو کہٹرے میں لاکھڑا کیا تھا ۔

جنرل مجید ملک مرحوم اپنی کتاب “ہم بھی وہاں موجود تھے” میں لکھتے ہیں کہ “پاکستان فوج ایک مضبوط اور منظم ادارہ ہے بدقسمتی سے اسے ماضی سے ایسی عادتیں پڑی ہوئی ہیں کہ اس نے اپنے آپ کو ایک قسم کی سپرپاور سمجھنا شروع کر دیا ” پھر سپرپاور کس طرح گوارا کر سکتی تھی کہ ایک کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے اور دوسرے کو توسیع نہ دی جائے۔ اس دن سے میاں نواز شریف مقتدرہ کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا ۔

اب کی بار سازش میں عدلیہ کا کندھا استعمال کیا گیا ۔ پانامہ آیا، سابق چیف جسٹس انور ظہیرجمالی کی عدالت میں درخواستیں دائر کی گئی کہ میاں نواز شریف کو نااہل کر دیا جائے۔ دوران سماعت انھوں نے پانامہ کو افسانوی قرار دیا۔ جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس بنتے ہیں اور کیس عزت مآب جسٹس کھوسہ کے پاس جاتا ہے تو وہ ریمارکس دیتے ہیں کہ آپ کو پہلے ہی ہمارے پاس آنا چاہئے تھا۔ باقی سب تاریخ ہے۔

خیال تھا کہ میاں نواز شریف کو بیمار اہلیہ سے دور رکھ کر اُنھیں پابند سلاسل رکھ کر اُن کے اعصاب کو توڑا جائے مگر اُنھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ستر سالہ بزرگ اتنا سخت جاں ثابت ہو گا ۔اپنا سب کچھ لُٹا کر بھی ووٹ کو عزت دو کی خاطر جیل کی سختیاں بھی برداشت کر گیا ۔ بیٹی کی گرفتاری بھی اس کے حوصلے کو نہ توڑ سکی وہ مرد آہن ثابت ہوا ۔

عمران خان کو لا کر ایک تجربہ کیا گیا، یہ تجربہ نہ صرف ناکام ہوا بلکہ تجربہ گاہ ہی ستیاناس ہو گئی، تجربہ کرنے والوں کو تجربہ گاہ بچانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔

تجربہ گاہ بچانے کی خاطر وہ میاں نواز شریف کی طرف دست تعاون بڑھا رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اپنی شرائط پر ڈیل کرنے کے لئے تیار ہے ۔ وہ کہتا ہے، میں تو سب کچھ لٹا چکا ہوں اب مُلک میں آئین اور قانون کی سپرمیسی ہونی چاہئے۔ جب یہ ہو گا تو میں ڈیل کے لیے تیار ہوں ۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui