ہنگامہ ہے کیوں برپا؟


سربراہ تحریک انصاف جناب عمران خان صاحب نے گزشتہ برس وزیراعظم کا حلف اٹھاتے ہوئے مختلف شعبوں میں اصلاحات اور اکھاڑ پچھاڑ بارے چند وعدے کیے تھے۔ اصلاحات اور تبدیلوں کے یہ تقریباً تین درجن کے قریب وعدے تھے جن میں پولیس اصلاحات اور فوری انصاف کی فراہمی سر فہرست تھے۔ وزیراعظم صاحب نے جہاں پولیس میں بنیادی تبدیلوں کے خواب دکھائے وہیں اپنے اسٹار ناصر درانی کی تعریفوں کے پل باندھتے بھی نظر آئے۔

صرف وزیراعظم کی تقریب حلف برداری کی بات نہ کیجئے۔ تھوڑا یاداشت پر زور ڈالیے، پولیس اصلاحات تو ہمیشہ سے ہی تحریک انصاف کا پسندیدہ نعرہ رہا ہے۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر آئی جیکو پھانسی دینے کی دھمکی ہو یا سینے ٹھوک ٹھوک کر سیاسی مداخلت سے پاک کے پی کے پولیس کی للکار، ہمیشہ سے پنجاب پولیس تحریک انصاف کے زیرِ عتاب رہی ہے۔ پولیس اصلاحات تحریک انصاف کا نعرہ ہی شاید اس وجہ سے بنا کہ سابقہ پنجاب حکومت کے پی کے کے طرز پر پنجاب پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے میں ناکام رہی تھی۔ لیکن قابل افسوس امر ہے کہ اب تک یہ نعرہ محض نعرہ ہی ہے، جو تحریک انصاف کا پیچھا کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ کیونکہ حکومت وقت اس بارے میں خاطر خواہ سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ تاحال تحریک انصاف پولیس اصلاحات کے ضمن میں کوئی خاطر خواہ اقدام اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

یوں نظر آتا ہے کہ سیاسی مجبوریوں نے تحریک انصاف کو اس قدر جکڑ دیا ہے کہ حکومت وقت اس اصلاحات ڈرامے سے چھٹکارا چاہتی ہے۔ اس مسلے کو تھپک تھپک کے سلایا ہی جا رہا تھا کہ سانچہ ساہیوال جیسے کرب ناک واقعے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت تلے پولیس کی ایسی دیدہ دلیرانہ کارروائیوں پر حکومتی کارکردگی پر بڑے بڑے سوالیہ نشان لگ گئے۔ مگر ہوا وہی جس کا ہمیشہ سے رواج ہے۔ اک مثالی اور دوسروں سے ہر طرح سے بہتر حکومت نے بھی جے آئی ٹی بنا کر اسی آڑ میں معاملے کو لٹکا دیا۔ چند ماہ بعد اس واقعے کے زخم کی یادیں مندمل ہونے لگیں۔ وقتی طور پر اک کے آئی ٹی اور چند ٹویٹس کے سہارے حکومت ملکی تاریخ کے اپنی طرز کے بدترین سانحے سے خوش اسلوبی سے ابھر آئی۔

گزشتہ ایک ماہ سے پنجاب پولیس کا ستارہ گردش میں ہے۔ پولیس کے زیر حراست پے در پے ملزمان کی ہلاکتوں اور پھر پوسٹمارٹمز کی لرزاں خیز رودادوں نے ایک بار پھر پولیس اصلاحات کے غبارے میں ہوا بھر دی ہے۔ لوگ شکوہ کناں ہیں ایسی ہوتی ہے مثالی پولیس؟ ایک بار پھر سرد خانے میں پڑی اصلاحات کی لاش میں جان ڈل گئی ہے۔ لیکن سب زبانی جمع خرچ، حقیقت یہ ہے کہ بجائے آئی جی صاحب عوام اور میڈیا سے کہتے کہ جائیں تھانوں میں اور مشاہدہ کریں پے در پے فرعونیت کی وارداتوں کے بعد پولیس کو لگام ڈال دی ہے جا کر دیکھیں سب بدل گیا ہے، جناب نے تھانوں میں ٹچ فون لے جانے پر پابندی لگا دی ہے، نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ گویا لوگوں کے پاس ریکارڈنگ کے لیے محض موبائل فون ہی واحد آپشن تھی۔

سننے میں آیا ہے کہ 6 ستمبر کو جناب وزیراعظم پاکستان نے اک اعلی سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پولیس تشدد سے ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور وزیراعلی پنجاب کو پولیس اصلاحات میں تیزی لانے کی ہدایت کی ہے۔ یہ پڑھ کر مجھے عمران خان صاحب کا وہ مثالی ٹویٹ یاد آ گیا جو انہوں نے کبھی سانحہ ساہیوال بارے کیا تھا، ”ساہیوال واقعے پر عوام میں پایا جانے والا غم وغصہ بالکل جائز اور قابل فہم ہے۔ میں قوم کو یقین دلاتا ہوں، قطر سے واپسی پر نہ صرف یہ کہ اس واقعے کے ذمہداروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی بلکہ پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا اور اس کی اصلاح کا آغاز کروں گا“

ہم سب جانتے ہیں پولیس اصلاحات کا یہ واویلا بھی وقتی ہے، ہم سب لکھنے والے، حکومت وقت، یہاں تک کہ فرداً فرداً ظلم سہنے والے بھی، چند دنوں میں کوئی تازہ ایشو آئے گا اور بڑی آسانی سے اس مسلے کا متبادل بن جائے گا۔ ایک بار پھر حکومتی کرتا دھرتا پولیس اصلاحات کو تھپک تھپک کر سلا دیں گے جب تک کہ کوئی اور واقع نہ جنم لے جو پہلے سے زیادہ دلخراش ہو۔ پھر سمجھنے سے قاصر ہوں پولیس اصلاحات کے معاملے پر اس قدر ہنگامہ کیوں برپا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).