طاہرہ اقبال کا ناول ”نیلی بار“


حافظ محمود شیرانی کے ’پنجاب میں اردو‘ کے نظریے سے قطع نظر اردو زبان کے بیشتر مورخین اور محققین اس بات پر متفق ہیں کہ اردو زبان کا آغاز دوآبے کی سرزمین دہلی اور میرٹھ کے مضافات سے ہوا۔ اس کی ابتدائی پرورش بھی وہاں ہوئی مگر اس پرسدا بہار جوانی اور جوبن اس وقت آیا جب اسے پنجاب کی آب و ہوا میسر ہوئی۔ گیسوئے اردو کو سنوارنے میں شانہ پنجاب کا ”اہم ہاتھ“ ہے۔ بلکہ کچھ دوست تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پنجاب نے اردو کو سنوارنے میں اپنی ماں بولی بھی قربان کر ڈالی ہے۔

انیسویں، بیسویں اور اکیسویں صدی میں پنجاب کے بہت سے لکھاریوں نے اردو ادب کے خزانے میں گراں قدر اضافے کیے۔ شاعری ہو یا نثر ہر طرف ادیبوں کی اک کہکشاں نظر آتی ہے۔ اسی کہکشاں کا ایک چمکتا ہوا ستارہ طاہرہ اقبال ہیں۔ طاہرہ اقبال نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اور ’سنگ بستہ‘ سے لے کر ’زمین رنگ‘ تک چار افسانوی مجموعے اردو ادب کے توشہ خانے میں جمع کروا چکی ہیں جبکہ ان کے دو ناولٹ ’رئیس اعظم‘ اور ’مٹی کی سانجھ‘ بھی شائقین علم و ادب سے داد وتحسین سمیٹ چکے ہیں۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی بدولت بحیثیت محقق بھی اپنی پہچان بنوا چکی ہیں۔ سفر نامہ نگاری میں بھی دخل ہے لیکن ان کا تازہ ترین تخلیقی کارنامہ ’نیلی بار‘ تا دیر یاد رہنے والا ادب پارہ ہے۔

نیلی بارکے منظر نامے کو سمجھنے کے لیے وسطی پنجاب کے جغرافیے سے آگاہی بہت ضروری ہے۔ بار اُس گھنے جنگل کو کہتے ہیں جو نوآبادیاتی دور میں بننے والے نہری نظام سے قبل دو دریاؤں کے دوران واقع ہوتا تھا۔ اس طرح کی باریں وسطی پنجاب کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں، جن میں نیلی بار، گنجی بار، ساندل بار، گوندل بار اور کھڑانہ بار شامل ہیں۔ نیلی بار وسطی پنجاب کا وہ علاقہ ہے جو دریائے راوی اور دریائے ستلج کے درمیان واقع ہے۔

اس میں منٹگمری (ساہیوال)، اوکاڑہ، پاکپتن، دیپالپور، عارف والا، چیچہ وطنی، وہاڑی اور بورے والا کے علاقے شامل ہیں۔ کسی زمانے میں دریائے ستلج کا پانی نیل گوں ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے اس علاقے کا نام نیلی بار پڑا۔ طاہرہ اقبال کا ناول ’نیلی بار‘ اصل میں اسی دریائے راوی اور دریائے ستلج کے درمیانی علاقے کا بیانیہ ہے۔

طاہرہ اقبال کا تعلق انھی باروں سے ہے اُن کی اکثر کہانیوں اور اب ناول کا منظر نامہ انھی علاقوں سے تعلق رکھتا ہے۔ طاہرہ کی جم پل نیلی بارکی ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے ’گنجی بار‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے ان کا کچھ تعلق گنجی بار سے بھی رہا ہے۔ اور شادی کے بعد سے وہ ساندل بار کی باسی ہیں۔ جس طرح ایک باشعور اورصاحب دل انسان جس طبقے سے تعلق رکھتا ہے وہ اس کی خوبیوں اور خامیوں سے واقف ہوتا ہے اسی طرح طاہرہ، کیوں کہ خود ایک جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، اس طبقے کے بھیدوں کی طلسم کشاہیں۔ اپنے ناول میں انھوں نے ایک ماہر دست کار کی طرح انتہائی چابک دستی سے مختلف کرداروں کی مدد سے جاگیردارانہ نظام کے خد و خال اجاگر کیے ہیں۔

پاکستان بننے کے فوراً بعد پنجاب کا بیشتر علاقہ جاگیرداری نظام کے شکنجے میں اور زیادہ جکڑا گیا تھا۔ بالخصوص نیلی باراور گنجی بار کے علاقے میں پنڈی، چکوال، سیالکوٹ سے اٹھ کر آئے ہوئے گکھڑوں، اعوانوں، راجوں، ملکوں اور چودھریوں نے آریا حملہ آوروں کی طرح بار کے مقامی جانگلیوں کی بقول طاہرہ اقبال ”چپٹی ناکوں میں نکیل ڈال کر انھیں شودر اور راکشس بنا لیا تھا“ اوریوں ”آقائیت اور رعیت، ربوبیت اور بندگی کا عجب جاگیر دارانہ نظام متعارف ہوا۔ “

اور طاہرہ نے اسی نظام کی تہوں کو کھولنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس آقائیت اور رعیت کے متوازی مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجر بھی تھے: ”جنھیں چارچار چھ چھ ایکڑ زمینیں الاٹ ہو رہی تھیں جو خود کو زمیندار کہتے تھے۔ یہ جٹ، گوجر، آرائیں قومیں جو سبزیاں اور پھل دار درخت اگانا جانتے تھے اور ایک دوسرے کو کو چوہری (چودھری) کہہ کر پکارتے اور خود ہی اپنے آپ کو عزت دیتے تھے۔ “

’نیلی بار‘ میں طاہرہ کی فنکاری ان کے مربوط پلاٹ، جاندار کرداروں اور طاقت ور ڈکشن سے عیاں ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ نیلی بار کا پلاٹ اس علاقے کے جاگیرداری نظام کے زیر اثررہنے والے افراد کی سوچ اور اس نظام میں موجود بے رحم عناصر کے گرد گھومتا ہے۔ ناول کا آغاز نیلی بار اور اس کی رہتل کے تعارف سے ہوتا ہے۔ یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وارث شاہ نثر میں ہیر لکھ رہا ہے۔ وہی جزیات نگاری وہی منظر کشی وہی تفصیلات۔ طاہرہ بطخ کی مانند پانی کے اوپر نہیں تیرتیں وہ مچھلی کی طرح تہہ میں جاتی ہیں اور ایک انوکھی دینا ہمارے سامنے لے آتی ہیں۔

’نیلی بار‘ کے تعارف میں مقامی لوگوں کی شادی بیاہ کی رسومات کا ذکر بڑی تفصیل سے ملتا ہے۔ اور جب دلھن بیاہ کر لے جائی جا رہی ہوتی ہے تو کس طرح بارات بھٹک کر جھوک لنگڑیالاں کی حدود میں پہنچ جاتی ہے۔ اورلنگڑیالوں کے رسہ گیروں کے ہتھے چڑھ کر دلھن اور اس کی تین سہیلیوں کے تاوان کے عوض اذنِ رہائی پاتی ہے۔ ان چاروں عورتوں کو وفاقی وزیرملک فتح شیراور اس کے حواریوں کا رزق شب بننا تھا۔ مگر درمیان میں ملک کا اٹھارہ سالہ بیٹا عبدالرحمٰن شب خون مارتا ہے اور دلھن کو لے اڑتا ہے۔ اس پورے منظر نامے کو طاہرہ بے باکی اور بغیر کسی اضمحلال کے بیان کرتی ہیں اورنازک مقامات سے انتہائی خود اعتمادی سے گزرتی چلی جاتی ہیں۔ حویلی کی نوکرانیاں جو حقیقت میں مقبوضہ عورتیں ہی ہیں جب ’پائیا گوشت‘ کا ذکر کرتیں ہیں توکان تو سرخ ہوتے ہیں۔

ذرا ملک فتح شیر کی بات بھی سن لیجیے جو وہ اپنی رعایا کے حوالے سے ذیلدارسے کہہ رہا ہے : ”آپ تو جانتے ہیں سائیں۔ اپنی گرفت مضبوط رکھنے کو بعض اوقات رعیت کے ساتھ سختی بھی کرنا پڑتی ہے ورنہ پھر جو آپ کے ساتھ ہوا، آپ جانتے ہیں۔ ان غریبوں کو اگر آج رج کے کھانے اور سر اٹھا کر چلنے کی آپ اجازت دے دیں گے تو ان کا کمینہ خون کل آپ کے ہی خلاف جوش مارے گا۔ انھیں بھوکا اور لاغر رکھو۔ ان کا سر انھی کے کمزور کندھوں میں دھنسائے رکھو۔ ان کی طاقت سے زیادہ ان سے کام لو، ان کی انا کو ہر روز کچلتے رہوکہ کہیں یہ اپنی کوئی عزت وزت نہ بنا بیٹھیں۔ ان کی عورتوں کی عزت کو پائمال کرتے رہو۔ تاکہ بے غیرت بن کر خوف زدہ رہیں۔ جس روز یہ خوف کی کوکھ سے نکل گئے اس روز میری آپ کی بادشاہت بھی جاتی رہے گی کہ ہم تو مٹھی بھر ہیں یہ اکثریت میں ہیں۔ ہمارا ان سے عددی مقابلہ تو ہے نہیں بس انھیں اپنی طاقت سے دبائے رکھنا ہی ہماری کامیابی ہے۔ “

پورے جاگیرداری نظام کا ڈھانچہ انھی اصولوں پر کھڑا تھا اور شاید ابھی تک کسی نا کسی میں صورت کھڑا ہے۔ پاکستان میں جاگیرداری نظام سے سرمایہ داری نظام تک انھی اصولوں کی حکمرانی نظر آتی ہے۔

نیلی بار کے تعارف کے بعد کہانی وقت کے سمندر پر سفر کرتی ہے۔ ناول کا پلاٹ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ نیلی بار کا تعارف، ملکی سیاسی منظر نامہ اور مذہبی منظر نامہ۔ سیاسی منظر نامہ ایوب خان کے مارشل لا سے لے کر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے حالیہ ادوار تک آتا ہے۔ اس کے متوازی مذہبی منظر نامہ بھی چلتا رہتا ہے۔ یہاں یہ ڈر بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں طاہرہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ تو نہیں ڈال رہیں۔

ناول کے چندمختصر کردار بہت عمدگی کے ساتھ کہانی کوان فولڈ کرتے ہیں۔ ان ایک اہم کرداردلھن ست بھرائی کا ہے جو اغوا ہوتی ہے اور اپنے دلھا کی بجائے عبدالرحمن کی بے نکاحی دلھن بنتی ہے۔ اپنی جسم پر تصرف حاصل کرنے والے اسی پہلے مرد کے عشق میں مبتلا ہو کر سٹاک ہوم سنڈرم کا شکار ہوتی ہے۔ پھر ست بھرائی نہیں رہتی ست بھری ہو جاتی ہے۔ صفورہ ملک فتح شیر کی اٹھائیس سالہ کنواری بہن ہے جو اپنے آس پاس ہونے والی سرگرمیوں کی آگ میں جلتی رہتی ہے اور اپنے بدن کی پکار پر اپنی ملازمہ کے عاشق سے تسکین کے نتیجے میں اسی ڈکیت کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترتی ہے۔ اپنی گردن اتارنے والے اپنے بھائی کے پروردہ ڈاکو کی آواز پہچان کر اس کے آخری الفاظ ہماری سماعتوں گونجتے رہیں گے۔ ”یہ تو وہی ہے جو اس رات۔ ۔ ۔“

جاگیرداری نظام کے دو غلے پن کو طاہرہ نے اس کردار کے ذریعے سے بے نقاب کیا ہے۔ ذیلدار کی بیٹی بختاور کا کردار بھی صفورہ کی مانند فیوڈل سسٹم کی پروردہ کمزور عورت کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن ان چھوٹے مگر مضبوط کرداروں کے ساتھ کچھ بہت جاندار کردار بھی ہیں جن میں زارا فتح شیر، رقیہ بیگم اور سب سے بڑھ کر پاکیزہ کا کردار۔ پاکیزہ کے کردار پر مصنفہ نے بہت محنت کی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ طاہرہ اقبال خود ہی ہیں۔ اسم بامسمیٰ پاکیزہ اصل میں پاکیزگی اور معصومیت کی علامت ہے۔ طاہرہ کے نسوانی کردار طاقت ور اور کہانی کی جان ہیں۔ ان نسوانی کرداروں کے ساتھ مردانہ کرداروں میں علی جواد، عبدالرحمن، پیر اسرار احمد، گل خان اور صابر جان کے کردار بہت اہم ہیں۔

اور اب کچھ بات ہوجائے ڈکشن کی جو طاہرہ کی قوت بھی ہے اور کم زوری بھی۔ میں تو اسے قوت ہی مانوں گا۔ چند نمونے :

”پاکیزہ کو پکھی واسوں کی زندگی عجب رومان بھری معلوم ہوتی، جو کھلے آسمان تلے فطرت کی پناہوں میں جیتے، جہاں آسمان پورا منہ کھول کر برستا۔ سورج میلوں لمبی آتشیں زبانیں نکال اس بھٹی کو بھونتا تھا، جہاں کئی کئی پہر لال اور سیاہ آندھیاں جھلستیں فضائیں شوکارے بھرتیں، پکھیاں بادبانوں کی طرح پھٹپھٹاتیں، گیس بھرے غباروں کی طرح آسمانوں کو چڑھ جاتیں“

”یہ اس بار کا پسندیدہ موسم تھا جو ڈیڑھ دو مہینے چھوڑ کر سال بھر آسمانوں کے جہنم زاروں سے پورا منہ کھول کر برستا رہتا۔ دھرتی کے بھیتر سے، ہل ویڑوں، دراڑوں سے ہواؤں فضاؤں میں سے بھانبھٹر مچاتا جیٹھ ہاڑ ہر مسام ہر ذرے سے آتش فشانی لاوا بہائے چلا جا رہا تھا۔ جس سے بچاؤ کے لیے کوئی حفاظتی تدابیر یہاں کی ثقافت کا حصہ نہ تھیں۔ سوائے ان چھدرے چھدرے کیکر بکائنوں کے گنجے چھلنی سایوں کے جن کے ٹیڑھے میڑھے ڈالوں سے بندھی جھولیوں میں سوکھا زدہ، بڑھے پیٹوں اور پھنسیوں بھرے کٹورہ سروں والے نحیف بچے گندگی میں لت پت نیم بے ہوش پڑے رہتے جن کی ماؤں کو انہیں کھلانے نہلانے کا نہ وقت ملتا نہ خوراک کی قلت سے تھنوں میں دودھ اُترتا وہ یوں جنتے اور مرتے رہتے جیسے بیری سے کچے بیر چھڑتے رہتے ہیں“۔

اب ذرا مہاجر عورتوں کے بین سنیئے :

”ہائے امبرسر جالندھر تے گرداس پور کدھر رہ گئے۔ سوہنے دیس سوہنے نام ہائے وے ربا! یہ کیسا پاکستان نہ مٹی اپنی نہ قبریں نہ مال ڈنگر نہ ان پانی ہائے پردیسی ہوئے ہنستے بستے اُجڑ گئے مہاجر کہلائے۔ ہائے وے ربا کیسے کیسے بھیڑے نام، وہاڑی، بورا، چنوں، ہڑپہ، منٹگمری، چیچہ وطنی۔ ہائے وے بے وطنی، ربا وطن نہ چھٹیں کسی کے۔ چڑی کاں کا آہلنا بھی نہ چھٹے“

بین کی یہ کیفیت طاہرہ اقبال کے مختلف دیہاتی خواتین کرداروں کے ہاں تواتر سے دکھائی دیتی ہیں۔ اب ذرا گالیوں کا مزہ چکھیئے!

”لُچیو پیشہ کرنیو، چکلے بیٹھیو کنجریو! دودھ سارا پاتھیوں پر اُلٹ گیا۔ اس ماں کو دیکھتی رہو گی کیا؟ پہلے کبھی نہ دیکھی نا تم نے اس حویلی میں کیا پہلی بار آئی ہیں ایسپاں۔ کنویں کے پانی میں اپنا ہی منہ دیکھ لو لُچیو چکلے دارنیو! ہیں نی تنور کی پٹھ ٹھنڈی ہوگئی ہانڈیاں چولہے پر لگ گئیں۔ ساری حویلی مٹی گھٹے سے بھری ہے۔ تم انہی سے ٹچکریں کرتی رہو گی کیا؟“

اردو میں پنجابی کی آمیزش اس ناول کا رشتہ دھرتی کے ساتھ جوڑتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست ہو گا کہ ناول کا کینوس اُفقی نہیں بلکہ عمودی ہے اور زمین کے سینے میں اترا ہوا ہے۔ اس کی جڑیں زمین کے اندر پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ کسی انجان دیس اور بے گانی فضاؤں میں سانس لیتی کہانی کا بیان نہیں اس میں ہماری دھرتی کی باس ہے۔

بار کے رنگ موسم اور لوک سے شروع ہونے والی کہانی جب دسویں باب تک پہنچتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کہانی ابھی نامکمل ہے۔ یعنی پکچر ابھی باقی ہے، دوستو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).