امریکی صدر نے کس کے مشورے پر افغان امن معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کیا؟


امریکا افغانستان پرحملہ آور ہونے کے سترہ سال بعد یعنی جولائی 2018 ء میں وہاں قیام امن کے لئے مخالف فریق افغان طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لئے راضی ہوا۔ افغانستان میں امن کے لئے افغان طالبان کا یہ بنیادی مطالبہ تھا کہ بات چیت ہوگی تو براہ راست امریکا سے۔ سابق صدر حامد کرزئی کے دور حکومت میں بھی کوششیں کی گئی تھیں لیکن افغان طالبان ان کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کربات چیت کے لئے راضی نہ ہوئے۔ ڈاکٹراشرف غنی جب صدر منتخب ہوئے توانھوں نے بھی نہ صرف کئی مرتبہ افغان طالبان کو براہ راست بات چیت کی پیش کش کی بلکہ وہ کابل میں طالبان کا دفترکھولنے پربھی رضامند تھے لیکن افغانستان کے طالبان حامد کرزئی کی طرح ڈاکٹر اشرف غنی کو بھی انکار کرتے رہے۔

افغانستان کے سابق اور موجودہ حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت سے انکار پر افغان طالبان کا موقف شروع دن سے یہی ہے کہ امن کی چابی کابل کے حکمران کے پاس نہیں بلکہ وائٹ ہاؤس کے مکین کے پاس ہے اس لئے بات چیت ہوگی توصرف واشنگٹن ہی سے ہوگی۔ امریکا سترہ سال تک افغان طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکاری تھا۔ آخر کار گزشتہ سال امریکا نے افغان طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت پر آمادگی ظاہرکی۔

صدر ٹرمپ نے زلمے خلیل زاد کو افغانستان کے لئے خصوصی نمائندہ نامزد کیا۔ انھوں نے قطرکے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ گزشتہ سال براہ راست بات چیت کا آغاز کیا۔ جب امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کا ڈول ڈالا گیا تو طالبان کا بنیادی مطالبہ غیرملکی افواج کا انخلا تھا۔ امریکا نے افغان طالبان کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا۔ ان کو باورکرایا گیا کہ مرحلہ وار امریکی اور اتحادی افواج افغانستان سے نکل جائے گی۔ یاد رہے کہ روز اول سے افغان طالبان کے دوہی بنیادی مطالبات تھے اول کہ بات چیت صرف امریکا کے ساتھ ہوگی۔ دوم مذاکرات جب بھی ہوں گے توغیرملکی فوجیوں کا انخلا سرفہرست ہوگا۔ ان دونوں مطالبات پر آمادگی کے لئے امریکا کو سترہ سال لگے۔

ایک سال تک امریکی زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے۔ جب امریکا اورافغان طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت شروع ہوئی تو دونوں فریقین نے چار نکات پر اتفاق کیا۔ افغانستان طالبان وہاں کی سرزمین امریکا اور ان کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں کریں گے۔ امریکی اوراتحادی افواج کا انخلا۔ بین الافغان مذاکرات اورجنگ بندی۔

براہ راست بات چیت کے دوران دونوں فریقین کے درمیان صرف دونکات زیربحث آئے۔ افغانستان کی سرزمین کو کسی اور کے خلاف استعمال نہ کرنے کی ضمانت اور امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا۔ باقی دو نکات بین الافغان مذاکرات اور جنگ بندی پر بحث امن معاہدہ ہو جانے کے بعد کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ افغانستان کے لئے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اور افغانستان طالبان دونوں امن معاہدے کے لئے پرامید تھے۔ دونوں فریقین نے خوش خبری بھی سنائی تھی کہ ستمبر کے شروع میں امن معاہدہ پرفریقین دستخط کرلیں گے۔

اس کے بعد بین الافغان مذاکرات ہوں گے اور پھر جنگ بندی پر بات چیت ہوگی۔ امریکی نمائندے، افغان طالبان کے ساتھ حتمی معاہدے کا مسودہ لے کر صدر ڈاکٹراشرف غنی سے بات چیت کررہے تھے کہ یہ خبر آئی کہ امریکا کے وزیر خارجہ پومیپیو نے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکارکر دیا ہے۔ دوسری طرف ایک جریدے میں افغانستان میں امریکا کے سابق سفارت کارو ں نے مل کر مضمون لکھا جس میں اس معاہدے کی مخالفت کی گئی تھی۔ اگلے روز امریکی صدر ٹرمپ نے افغان طالبان کے نمائندوں کے ساتھ ہونے والی خفیہ ملاقات منسوخ کرتے ہوئے امن مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا۔

وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ طالبان نے کابل میں خودکش حملہ کر کے ایک امریکی فوجی کو ہلاک کیا ہے اس لئے اب ان کے ساتھ معاہدہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا معاملہ اتنا ہی سادہ ہے جو صدرٹرمپ نے لکھا ہے؟ ہرگزنہیں۔ دونوں فریقین امریکا اورافغان طالبان اندرونی طور پر اس معاہدے پر اختلافات کا شکار تھے۔ طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر وائٹ ہاؤس کے ساتھ پینٹاگون راضی نہیں تھا۔ دوسری جانب طالبان کی عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان بھی اختلافات موجود تھے۔

افغان حکومت چونکہ مذاکرات کا حصہ تھی ہی نہیں اس لئے وہ بھی اس معاہدے کی مخالف تھی۔ افغان حکومت کا موقف یہ ہے کہ ملک میں صدارتی انتخابات ہونے چاہییں اس کے بعد طالبان امریکا کی بجائے حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کریں۔ افغانستان کے سرکردہ سیاسی رہنما چونکہ اس عمل کا حصہ نہیں تھے اس لئے ان کو بھی تشویش تھی۔ امریکا نے افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے دوران طالبان ہی کے مطالبے پر افغانستان کی حکومت کو مذاکرات سے دوررکھا۔

صدر ٹرمپ اس معاہدے کو منسوخ کرنے پر اس لئے مجبور ہوئے کہ پینٹاگون اورافغانستان کی حکومت اس معاہدے کے خلاف تھی۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی شدید مخالفت بھی اس معاہدے کو منسوخ کرنے کا سبب بنی۔ شنید یہ ہے کہ سی آئی اے نے صدر ٹرمپ کو قائل کیا کہ افغان طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے بعد وہاں سے امریکی اوراتحادی افواج کے انخلا کے بعد معاملات مکمل طور پر طالبان کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے۔ افغانستان کی فوج اور پولیس ابھی تک اس قابل نہیں کہ وہ طالبان جنگجوؤں کا مقابلہ کر سکے اس لئے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاکے بعد القاعدہ دوبارہ افغانستان میں منظم ہوکر وہاں کی سرزمین کو امریکا اور دیگر اتحادی ممالک کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔

سی آئی اے نے یہ رپورٹ بھی دی ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے لیکن ان کو زیادہ تشویش القاعدہ کے دوبارہ منظم ہونے اورامریکا کے خلاف انتقام کے طور پروہاں کی سرزمین کو استعمال کرنے پر ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ سی آئی اے نے خطے میں چین کی اقتصادی سرگرمیوں، روس کی دوبارہ عالمی معاملات میں دلچسپی، پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ جموں و کشمیرکی موجوہ کشیدہ صورت حال اور مشرق وسطیٰ کی بگڑتے حالات کی وجہ سے صدرٹرمپ کو خطے سے نہ نکلنے کا مشورہ دیا ہے۔

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کابل میں امریکی فوجی کی ہلاکت پرنہیں بلکہ پینٹاگون کی شدید مخالفت اور سی آئی اے کی ان رپورٹس پرمنسوخ کیا ہے جس میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہاں سے نکل جانے کے بعد القاعدہ نہ صرف دوبارہ منظم ہوسکتی ہے بلکہ امریکا اور ان کے اتحادی ممالک کے خلاف بڑی کارروائیاں بھی کرسکتی ہے۔ چین اقتصادی طور پر خطے پراپنی گرفت مضبوط کرسکتا ہے، روس دوبارہ طاقت پکڑسکتا ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ تناؤ اور سعودی عرب اورایران کے درمیان کشیدہ حالات میں افغانستان نہ چھوڑنے کا مشورہ شامل ہے۔ اس لئے کہ ایک مرتبہ خطے سے نکلنے کے بعد دوبارہ واپسی مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).