تشدد، ماورائے عدالت قتل اور ہمارا قانون


رحیم یار خان کے ایک تھانے میں صلاح الدین ایوبی نامی ملزم کا دوران حراست موت کے بعد ملک کے مختلف علاقوں سے تواتر کے ساتھ ایسے واقعات کی خبریں آنے لگی ہیں۔ تھانوں کے اندر ہونے والاتشدد، دوران حراست موت اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات ہمارے ہاں نیئے نہیں ہیں۔ جب بھی کوئی ایسا بھیا نک واقع رونما ہوجاتا ہے تو لوگ کچھ عرصے تک شور مچاتے ہیں پھر یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ لوگ شور مچانے کے لئے واقعات کے انتظار میں ہوتے ہیں، تھانہ کلچر، فرسودہ اور روایتی نظام کی تبدیلی کے لئے دیر پا تگ و دو کرنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں عام لوگوں کو پولیس کے اختیارات اور ان کے لئے طے شدہ حدود قیود کا ادارک نہیں ہے اس لئے تشدد اور ماورائے عدالت قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف چارہ جوئی کم ہوتی ہے۔ لوگ پولیس کی طرف سے کیے جانے والے تشدد کو قانونی عمل سمجھتے ہیں اس لئے تشدد میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا اپنا حق نہیں سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان واقعات میں کمی نہیں آتی ہے۔ پولیس کو قانون کے تابع رکھنے کے لئے ایک ملک گیر مہم کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے پارلیمنٹ سے آغاز کیا جاسکتا ہے۔

ہمارے ہاں پولیس افسران کو تو یہ لازماً پڑھایا جاتا ہے کہ قانون کے نفاذ کے دوران ان کو کن کن حدود و قیود کا خیال رکھنا چاہیے مگر عام پولیس اہلکاروں کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ ان کے اختیارات کیا کیا ہیں؟ اس لئے اکثر پولیس اہلکار اپنے فرائض منصبی کے دوران طے شدہ قانونی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ بعض اوقات حدود سے تجاوز کے الزام میں وہ قانون کی گرفت میں بھی آجاتے ہیں۔ جب بھی کوئی پولیس اہلکار گرفتار ہوجاتا ہے تو عام لوگ حیران ہوتے ہیں اور پوچھننے لگتے ہیں کہ کیا لوگوں کو گرفتار کرنے والے پولیس اہلکار خود بھی گرفتار ہوسکتے ہیں؟

جی ہاں پولیس فورس کے لئے فرائض منصبی کے حدود و قیود طے شدہ ہیں ان سے تجاوز کرنے کے نتیجے میں ان پر مقدمہ درج ہوسکتا ہے اور وہ گرفتار ہوسکتے ہیں۔

پولیس کو ملزم پر گرفتاری سے قبل، گرفتاری یا ریمانڈ کے دوران یا عام حالات میں تشدد کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں فیزیکل ریمانڈ کا مطلب بھی تشدد سمجھا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔ فیزیکل ریمانڈ کا مطلب تشدد نہیں بلکہ ملز م کا بنفس نفیس تفتیش کے لئے حاضر ہونا ہے۔ تفتیش کا مطلب مار پیٹ نہیں بلکہ پوچھ گچھ کے ذریعے معلومات حاصل کرنا ہے۔ اس دوران اگر معلومات کے حصول کے لئے تشدد کیا جائے گا تو وہ قابل گرفت عمل ہے جس پر عدالت پولیس کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ گویا دوران تفتیش تشدد غیر قانونی ہے اگر دوران تفتیش تشدد کی وجہ سے ملزم کی ہلاکت واقع ہوجائے تو اس کو ماورائے عدالت قتل کہا جاتا ہے جس کی سزا وہی ہے جو کسی بھی قتل کے واقع کی سزا ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں تشدد کے بہت کم واقعات منظر عام پر آتے ہیں جبکہ اکثر تشدد کے واقعات کو پولیس چھپانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ تھانوں کے اندر جو کچھ ہوتا ہے اس سے باہر کے لوگ نا واقف ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور سمارٹ فون کی بدولت چند واقعات عوام تک پہنچے ہیں ان واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی عقل پر مبنی اقدامات اٹھانے کی بجائے شنید ہے کہ حکومت نے تھانے کے احاطے میں سمارٹ فون پر ہی پابندی لگا دی ہے۔ گویا حکومت کے نزدیک تشدد برا عمل نہیں ہے بلکہ اس کو اچھالنا برا عمل ہے۔

آئین پاکستان کا آرٹیکل 14 ( 2 ) تشدد کی ممانعت کرتا ہے۔ تشدد کے خلاف بین الاقوامی کنونشن جس پر پاکستان نے دستخط کے بعد اس کی تصدیق و توثیق کی ہے، کے تحت بھی تشدد کی سختی سے ممانعت ہے۔

تاہم پولیس صرف اپنے اوپر ہونے والے کسی حملے، سرکاری و غیر سرکاری املاک سمیت اپنی یا دیگر انسانوں کی جانیں بچانے اور انتشار کو کم کرنے کے لئے محدود طاقت کا استعمال کر سکتی ہے جس کے لئے اکثر مجسٹریٹ کی اجازت اور واضع وجوہات اور ان کے شواہد کا ہونا لازمی ہے تاکہ پولیس اپنے اس عمل کا عدالت میں دفاع کر سکے ورنہ طاقت کے غلط استعمال پر پولیس کو سزا ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں تشدد اور ماورائے عدالت قتل کو ایک جرم قرار دینے سے متعلق تشدد کے خلاف عالمی کنونشن اور اس کے آپشنل پروٹوکول کی روشنی میں قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملوث اہلکاروں کو سزا مل سکے۔ نیز عوام میں بھی اس ضمن میں شعور و آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ تشدد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اپنا حق استعمال کر سکیں۔

عام لوگوں، تھانے میں آنے والے سائلوں اور ملزمان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا پولیس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ شہریوں سے بد سلوکی، تشدد اور بلا وجہ طاقت کا استعمال غیر قانونی اور قابل گرفت عمل ہے۔ حکو مت کو چاہیے کہ وہ پولیس کے رویے اور فرائض کی انجام دہی کے لئے طے شدہ حدود و قیود سے متعلق پولیس افسران کے علاوہ عام پولیس اہلکاروں کے لئے بھی خصوصی تربیت کا اہتمام کرے تاکہ پولیس کو عوام کے لئے زحمت کی بجائے رحمت بنایا جاسکے اور ”خدمت آپ کی ہے فرض ہمارا“ کے نعرہ کا عملی نمونہ بن سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).