وزیراعظم عمران خان کے غلط فیصلے


تحریک انصاف کی کمزورمنصوبہ بندی اور غیر متوازن فیصلوں نے جتنا نقصان پاکستان کو پہنچایا ہے پاکستانی قوم اس کا ازالہ نہیں کر پا رہی۔

آپ سب سے پہلے تجاوزات کے نام پر گھروں اور دکانوں کو مسمار کرنے کے فیصلے کو سامنے رکھیں اور حساب لگائیں کہ جمع تفریق کے بعد عام آدمی اور حکومت پاکستان کو کیا بچا؟ ان تجاوزات کے نام پر بیواؤں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے گھروں سے چھت چھین لی گئی۔ ان غریبوں کی بستیاں اور چھتیں بھی مسمار کر دی گئیں جن کے پاس انتقال شدہ رجسٹریاں تھیں۔ جن لوگوں نے حکومتی اداروں کو قانونی طور پر فیس دے کر زمینیں اپنے نام کروائیں اور ان پر لاکھوں روپوں کے گھر اور دکانیں بنائیں ان کی جائیدادوں کو پلک جھپکتے ہی زمین بوس کر دیا گیا۔

خان صاحب اب آپ ہی بتائیں کہ پاکستان میں قانونی طور پر زمین اپنے نام کروانے کا طریقہ رجسٹری انتقال ہے۔ جس میں پوری سرکاری مشینری استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا کوئی طریقہ نہیں ہے لیکن آپ کی حکومت نے رجسٹری انتقال والے گھروں اور دکانوں کو مسمار کر دیا۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو زمینیں حکومت پاکستان نے جائز طریقے سے ناجائز لوگوں سے خالی کروائی ہیں اس کے بدلے حکومت کو کیا ملا ہے؟

اگر حکومت نے اربوں روپوں کی زمین قبضے سے خالی کروا لی ہے تو اس زمین کا حکومت کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ کیا حکومت کو ان زمینوں سے کوئی آمدن آ رہی ہے؟ کیا ان زمینوں کو بیچ کر حکومت نے کھربوں روپے خزانے میں جمع کروائے ہیں یا وہ زمینیں کتوں کے موتنے، گدھوں کے ہانکنے اور گھوڑوں کے ہگنے کے لیے خالی رکھ دی گئی ہیں؟ خان صاحب اس کا حساب کتاب لگائیں تو آپ ممکنہ طور پر اس نتیجے پر پہنچ سکیں گے کہ کچھ مفاد پرستوں نے تجاوزات کے نام پر ذاتی فوائد حاصل کیے ہیں۔ اپنی پسند کی زمینوں کو خالی کروایا ہے اور اب ان پر کسی اور پارٹی کا قبضہ ہے۔ آج بھی تجاوزات ویسے ہی قائم ہیں اور حکومتی اداروں کی ماہانہ رشوت کا ریٹ بڑھ گیا ہے۔

آپ نے یہ ظلم کم علمی، اندھا اعتماد اور کرپٹ بیوروکریسی کے مشوروں کی بدولت کیا۔ وہ جانتے تھے کہ عمران خان نے نہ تو کرپشن کرنی ہے اور نہ کرنے دینی ہے لہذا حکومت سے ایسے کام کروائے جائیں کہ اس کی مقبولیت دنوں میں زمیں بوس ہو جائے اور بیوروکرسی اپنا کام کرتی رہے۔ لیکن مورخ اس ظلم کا اصل ذمہ دار آپ کو ٹھہرائے گا کیونکہ آخری فیصلہ تو بہرحال آپ نے کیا تھا۔

آئیے اب ایک نظر ڈیم فنڈ پر بھی ڈال لیتے ہیں۔

ڈیم فنڈ میں دس ارب روپے جمع ہوئے۔ جبکہ چودہ ارب روپے کے اشتہارات میڈیا پر چلائے گئے۔ بینکوں نے بینرز چھپوا کر تمام برانچوں کے باہر لگائے۔ سٹیشنری پرنٹ کروائی۔ سرکاری ملازموں، بینک ملازمین اور فوج کی کم و بیش تین دن کی تنخواہیں کاٹ کر ڈیم فنڈ میں جمع کروائی گئیں۔ بیرون ملک دوروں پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ بہت سے کیسوں کے جرمانے ڈیم فنڈ میں ڈالے گئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ارب اکٹھے کرنے کے لیے تقریباً پچیس ارب روپے خرچ کیے گئے۔

ڈیم فنڈ میں پندرہ ارب روپے کے نقصانات کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ یہ پندرہ ارب روپے ریکور کروانے کا طریقہ کار طے ہونا چاہیے۔ سیاسی لوگوں کا عوام میں مہم چلانا اور اس میں نقصان ہو جانا کسی حد تک قابل قبول ہوتا ہے کیونکہ وہ عوامی جذبات کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں اور اس طرح کی مہم چلانا ان کا استحقاق بھی ہوتا ہے۔ لیکن ایک سرکاری ملازم چیف جسٹس پاکستان کا اس طرح کا جرم ناقابل معافی ہے۔ کیونکہ انھوں نے اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر کھیلا ہے۔

ان کے اس کھیل سے قوم کو پندرہ ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ ثاقب نثار صاحب کے اس ڈرامے نے پاکستانیوں کا دل کھول کر عطیات دینے کا بھرم بھی خاک میں ملا دیاہے۔ اس رام لیلا کی کہانی کو شروع کرنے والے اور حکومت کو زبردستی اس میں شامل ہونے کے لیے مجبور کرنے والے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار صاحب اس جرم سے بری الزمہ قرار نہیں دیے جا سکتے۔

میری تحقیق کے مطابق وزیراعظم عمران خان اس ڈیم فنڈ کے حامی نہیں تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس طرح پیسہ اکٹھا نہیں ہو گا لیکن انھیں زبردستی اس میں دھکیلا گیا۔ لیکن یہاں بھی مورخ عمران خان صاحب کو ذمہ دار ٹھرائے گا کیونکہ ڈیم فنڈ مہم میں شامل ہونے کا آخری فیصلہ بہرحال وزیراعظم عمران خان صاحب کا ہی تھا۔

آئیے اب ایک نظر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے وزیراعظم صاحب کا بروز جمعہ دوپہر بارہ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک کھڑے ہوکر ”کشمیر آور“ منانے کے فیصلے پر ڈالتے ہیں۔

میں ذاتی حیثیت میں اس طرح کی اظہار یکجہتی کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ یہ وقت اور پیسے کا ضیاع ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، لیکن پھر بھی اگر کشمیر آور منانا ہی تھا تو یہ بہتر انداز میں بھی منایا جا سکتا تھا۔

پاکستان میں جمعہ کے روز احتجاج کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس احتجاج کے کچھ اصول اور ضابطے پہلے سے طے ہیں۔ جو کہ اس کی کامیابی کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔ ان اصولوں میں وقت کا تعین سب سے اہم ہوتا ہے۔ جمعہ کے دن احتجاج کے لیے وقت جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد کا رکھا جاتا ہے۔ مسجدوں میں علما حضرات نماز سے پہلے اعلان کرتے ہیں کہ نماز کی ادائیگی کے بعد ریلی نکالی جائے گی لہذا نماز پڑھ کر گھر مت جائیں بلکہ ریلی کا حصہ بنیں۔

جمعہ کے دن کیونکہ چھوٹے شہروں میں چھٹی ہوتی ہے اس لیے عوام بآسانی احتجاج یا ریلی میں شامل ہو جاتی ہے اور جم غفیر اکٹھا کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہتا لیکن آپ کے مشیروں نے یہاں بھی آپ کو غلط مشورہ دیا۔ آپ نے یکجہتی کے اظہار کا وقت دوپہر بارہ سے ساڑھے بارہ کا رکھا۔ یہ وقت جمعہ کی نماز کی تیاری کا ہوتا ہے۔ اس وقت لوگ جمعہ کی تیاری کرتے یا کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے؟

خان صاحب اگر کشمیر آور کا وقت جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد ہوتا تو کروڑوں لوگوں کا ہجوم آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا۔ وزیراعظم کی تقریر مغرب کی نماز کے بعد ہوتی اور دعائیہ تقریب رات دس بجے ہوتی تو پورا دن پاکستانی میڈیا پر کشمیر کی آواز گونجتی اور دنیا کو ایک مضبوط پیغام بھی چلا جاتا۔ دوپہر 12 بجے احتجاج کا مشورہ ممکنہ طور پر آپ کے مشیروں کی طرف سے آیا ہو گا لیکن آخری فیصلہ تو آپ نے ہی کیا ہو گا لہذا اس کے ذمہ دار بھی آپ ہی ہیں۔

خان صاحب اس طرح کے سینکڑوں غلط فیصلے ایسے ہیں جن پر اگر لکھا جائے تو سینکڑوں کالموں میں لاکھوں الفاظ پروئے جاسکتے ہیں۔ یہ صرف ایک سال کی کارکردگی کی چھوٹی سی جھلک ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آپ ان واقعات سے کچھ سیکھیں گے بھی یا اپنے چاہنے والوں کو جلنے اور کُڑھنے کا مواد مہیا کرتے رہیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).