ایک باہمت لڑکی کی کہانی


وہ اپنے والدین اور پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ صوبہ پنجاب کے دور دراز علاقے میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی۔ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی اور اس کے والد دوسرے شہروں سے سامان لاکر یہاں بیچا کرتے تھے اور ان کا کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا۔ زندگی کے شب و روز یونہی گزررہے تھے کہ ایک دن اس کی والدہ کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ مقامی ڈاکٹر سے چند دن علاج کرانے کے بعد بھی جب وہ بہتر ہونے کے بجائے مزید بیمار ہوتی گئیں تو ڈاکٹر کے کہنے پر اس کی والدہ کو بڑے ہسپتال لے جایا گیاجہاں وہ تین چار دن ایڈمٹ رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی گئیں۔

والدہ کیا گئیں اُس بچی پر ذمہ داریوں کا کوہ ہمالیہ آن پڑا۔ گھر میں بڑی ہونے کے ناتے اسے گھر بھی سنبھالنا تھا ’گھر کے کام کاج بھی کرنے تھے‘ بہن بھائیوں کا خیال رکھنا اور ان کو پڑھانا بھی اس کے کھاتے میں آگیا اور سب سے بڑھ کر اپنے دوسالہ بھائی کوپالنا بھی اب بارہ سالہ بچی کے ذمہ تھا۔ ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے اس کے خاندان کے بڑوں نے ایک دن ان کے گھر جاکر اس کے والد سے کہا کہ آپ اس کا سکول ختم کرادیں تاکہ یہ سارے کام آسانی سے کرسکے۔

اس کے والد نے اپنے خاندان کی بات پر سرتسلیم خم کیا۔ یہ بات جب اُس ہونہار طالبہ کے کانوں میں پڑی تو اس کے آنسو بارش کے قطروں کی طرح اس کی آنکھوں سے مسلسل ٹپکنے لگے۔ رات کو اُس نے روتے ہوئے اپنے والد سے کہا:ابو جی میں گھر کے سارے کام کرلوں گی ’بس آپ مجھے پڑھنے سے مت روکیں۔ امی کہتی تھی کہ یہ میری سب سے ذہین بیٹی ہے تو میں اپنی امی کا خواب پڑھ لکھ کر پورا کرنا چاہتی ہوں‘ پلیزمجھے امی کاخواب پورا کرنے دیں۔

بارہ سا لہ بچی کے منہ سے اتنی بڑی باتیں سن کر والد کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں اور والد نے اسے گلے لگاتے ہوئے اسے پڑھنے کی اجازت دے دی۔ وہ صبح فجر کی اذان کے وقت اُٹھتی ’نمازاور تلاوت کے بعد والد اور بہن بھائیوں کواٹھاتی اور خود ان کے کپڑے استری کرتی‘ بیگ پیک کرتی ’ناشتہ بناتی‘ لنچ تیارکرتی اور پھر جب سب تیارہوجاتے تو وہ خود بھاگم بھاگ سکول کے کپڑے پہنتی اور وقت بچتا تو ناشتہ کرلیتی ورنہ بغیر ناشتہ کے ہی اپنے دوسالہ بھائی کو ساتھ لے کرسکول چلی جاتی۔

وہاں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی کو بھی سنبھالتی۔ سکول سے واپس آکر دوپہر کے کھانے کا بندوبست کرتی اور کھانے کے بعد گھر کی صفائی کرتی۔ پھر اپنی نگرانی میں بہن بھائیوں کا ہوم ورک کراتی اور پھر رات کے کھانے کی تیاری میں لگ جاتی۔ جب بہن بھائی سو جاتے تو وہ اپنا ہوم ورک کرتی۔ رات جب اپنے جوبن پر پہنچتی تو وہ سوجاتی اور صبح اُٹھ کر پھر وہی سارے کام اس کی راہ تک رہے ہوتے۔

قارئین! یہ بارہ سالہ بچی کی روٹین ہے جسے لکھتے ہوئے میرے رونگٹھے کھڑ ے ہوگئے ہیں ’آپ سوچیں اور داد دیجئے اس بچی کو جواس کم عمری میں یہ سب کام بھی کرتی تھی اور پڑھنے سے بھی نہیں بھاگتی تھی۔ بہرحال وقت گزرتا گیا اور اس کا چھوٹا بھائی بھی سکول جانے لگ گیا تو اس کی بیسیوں ذمہ داریوں میں سے ایک ختم ہوگئی۔ ان سب کاموں کے باوجود اس نے اچھے نمبروں سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر میٹرک میں بھی اپنے سکول میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔

میٹرک کرتے ہی پھر خاندان کے کچھ لوگ اس کی تعلیم ختم کرانے کے لیے آگئے ’مگر اس کے والد نے یہ کہہ کر انہیں انکار کردیا کہ ماشاء اللہ سے میری بیٹی پچھلے پانچ سال سے سارا گھر سنبھال رہی ہے‘ بہن بھائیوں کاخیال رکھنے کے ساتھ ان کو پڑھا بھی رہی ہے اور ساتھ خود بھی پڑھ رہی ہے تو میں اسے کیوں تعلیم سے روکوں۔ ؟ والد کے جواب نے اسے اور مضبوط بنا دیا اور وہ اور زیادہ لگن سے پڑھنے لگی۔ اس نے انٹر میں داخلہ لیا اور کالج میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اچھے نمبروں سے انٹر میڈیٹ مکمل کیا۔

امتحانات اور رزلٹ کے دوران چھٹیوں میں اس نے دینی مسائل سے آگاہی کے لیے ایک مدرسہ میں داخلہ لیا اور دین کی تعلیم بھی حاصل کی۔ انٹر کے بعد اس نے گریجوایشن میں داخلہ لیا اور اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے باوجود اچھے نمبروں سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کرنے والی اپنے خاندان کی پہلی لڑکی بنی۔ اس دوران اس نے سلائی کڑھائی کا کام بھی سیکھا اور اس میں مہارت حاصل کی۔ پھر اس نے ”ایم اے اسلامیات“ میں داخلہ لیے لیا۔

یہ اس کی زندگی کا ایک رخ تھا ’اب دوسرے رخ پر بھی بات کرتے ہیں۔ اس کے ددھیال توصادق آباد میں رہتے تھے اور ننھیال (یعنی نانا نانی‘ ماموں اور دوخالہ) لاہور میں۔ ہر گرمی کی چھٹیوں میں وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ لاہور اپنے ننھیال آجاتی تھی اور یہاں اسے اپنی ایک خالہ کا گھر بہت پسند تھا کیونکہ وہ خالہ اُن سے بہت پیارکرتی تھیں۔ جب بھی وہ خالہ کے گھر آتے تو وہ سب خوب انجوائے کرتے اور جب واپس صادق آبادجانے کی باری آتی تو افسردہ دل اور نم آنکھوں کے ساتھ وہ واپسی کی راہ لیتے۔

اسی خالہ کے ایک بیٹے سے اس کی کافی دوستی تھی۔ لڈّو کھیلتے تو اس کی کوشش ہوتی کہ وہ کزن اس کا پارٹنر بنے اور وہ اپنی تعلیمی معاملات بھی اسے کزن سے ڈسکس کرتی تھی۔ سال گزرتے گئے اور جب اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اُس کے دل میں یہ خیال آیا:کاش یہ کزن اُس کا لائف پارٹنربن جائے تو اس کی زندگی سنور جائے۔ بس یہ خیال آنے کی دیر تھی کہ وہ ہر نماز کے بعد یہی دعا کرنے لگی۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے تو اس کی بے بہا مشکلات کے بعد اس کے لیے بھی آسانی کے راستے کھلے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی اور اس کی خالہ نے اپنے بیٹے کے لیے اُس کا رشتہ مانگا جو اس کے والد نے بخوشی قبول کرلیا۔ رشتہ مانگنے سے شادی تک کے تمام مراحل ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں طے ہوئے اور وہ اپنے پسندیدہ گھر میں اپنے بہترین دوست کی لائف پارٹنربن کر لاہور آگئی۔ لاہور آنے کے بعد بھی اس نے اپنے گھرکی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔ اس نے پہلے اپنے دو بھائیوں کو لاہور بلا یا اور یہاں وہ جاب کرنے لگ گئے اور پھر کچھ عرصہ بعد اس نے اپنے والد ’بہن اور چھوٹے بھائی کو بھی لاہور بلا لیا۔ گویا اس کی فیملی صادق آباد کو مستقل طور پر خیرآباد کہہ کر لاہور شفٹ ہوگئی۔

اللہ تعالیٰ نے شادی کے بعد اُسے بہت خوشیاں دیں۔ بچپن میں ممتا سے محروم ہونے والی اس بچی کو شادی کے بعد ساس کی شکل میں ماں اور شوہر کے روپ میں بہت پیار کرنے والا دوست مل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دوبیٹوں سے نوازا اورجب اس کے بیٹے کچھ بڑے ہوگئے تو اس نے پہلے قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنی شروع کی ’بعد ازاں مختلف ناولز اور کتابوں کا مطالعہ شروع کیا اور پھر ایک دن اُس نے اپنے شوہر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ”کرن روشنی کی“ کے عنوا ن سے کالم لکھنے شروع کیے۔

چند کالم کے بعد ایک دن اُس کے شوہر نے کہا کہ کالم لکھنے والے توبہت ہیں ’آپ کچھ الگ لکھو۔ پھر اس نے ”میں نے اپنی روح نکلتی دیکھی! “ افسانہ لکھا جس نے اپنے قارئین کی آنکھیں نم کرادیں۔ سینکڑوں لوگوں نے اس کو پڑھ کر خوب سراہا۔ آج کل وہ لکھنے میں مصروف ہے۔ دنیائے ادب اس ”باہمت لڑکی“ کو ”ثمرین زاہد“ اور اس کے اردگرد کے لوگ اسے ”سیم زاہد“ کے نام سے جانتے ہیں۔

قارئین! ہم اپنی چھوٹی چھوٹی مشکلات کا رونا روتے رہتے ہیں اور محنت سے دور بھاگتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بارہ سالہ لڑکی کی ذمہ داریاں دیکھیں کہ اس نے کم عمری کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کو بھی باحسن نبھایا اور اپنے خاندان کی لڑکیوں میں سب سے زیادہ تعلیم بھی حاصل کی۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ مشکلات سے مت گھبرائیں ’اس کا مقابلہ کریں اور ان کے حل کے لیے کوشش کریں۔ اگر آپ دلجمعی سے لگے رہیں گے تو ان شاء اللہ آپ کی یہ مشکلات بہت جلد آسانیوں میں بدل جائیں گی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).