کشمیری لڑکی کی ڈائری: ’کیا کہیں کوئی کبوتر ہے جو میرا خط پہنچا دے۔۔۔‘


تسنیم
TASNIM SHABNAM

28 سالہ تسنیم شبنم (فرضی نام) سکالر ہیں اور انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ وہ پرانے سرینگر کی رہائشی ہیں۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے بعد وہاں کے رہنے والے مختلف پابندیوں کی زد میں ہیں اور بیرونی دنیا کے ساتھ ان کے رابطے محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں تسنیم شبنم سری نگر میں عام لوگوں کے معمولات اور احساسات کو بی بی سی کے لیے ایک ڈائری کی شکل میں قلم بند کر رہی ہیں۔ آج ڈائری کی دوسری قسط شائع کی جا رہی ہے۔

کئی روز تک کرفیو کے دوران میں نے کتابوں کو کھنگالنے کی کوشش کی۔ ایک پیراگراف پڑھنے کے بعد میں اُوپ جاتی۔ ٹی وی پر محدود چینلز کی اجازت تھی۔ موبائل فون نہیں، ٹیلی فون نہیں اور انٹرنیٹ بھی نہیں۔

ہر شام حکومت کے ترجمان روہت کنسل کا اعلان سنتی۔ وہ کہتے کہ لوگوں کو آنے جانے کی اجازت ہے۔ مگر میں جاتی کہاں؟ اُسے کہاں ڈھونڈتی؟

فون کی اہمیت جتنی آج سمجھ آئی ہے اتنی کبھی نہیں آئی۔ میرے کزن کی بیوی کرفیو سے قبل ہسپتال میں داخل ہو چکی تھی۔ یہ خبر کہ اُن کے یہاں بیٹا ہوا ہے ہمیں پانچ روز بعد معلوم ہوئی۔ تب تک ہمارے گھر میں طرح طرح کی باتیں ہوئیں۔ کسی نے کہہ دیا کہ کہیں دیدی کا انتقال تو نہیں ہوا، کوئی کہنے لگا کہیں بچے کو کچھ تو نہیں ہوا۔

ایک بار گلی کوچوں سے چُھپتا چُھپاتا میرا کزن بائیک لے کر گھر آیا۔ اُسے ڈاؤن ٹاؤن میں اپنی بہن کے یہاں یہی خبر لے کر جانا تھا۔ میں نے ضد کی کہ میں بھی ساتھ چلوں گی۔ گھر سے راجوری کدل تک سڑکوں پر جلے ہوئے ٹائر، اینٹیں اور پتھر اور سڑک کے کناروں سے اُکھاڑے گئے پھول دان نظر آئے۔

اکا دُکا بائیک یا کار ہی سڑک پر تھے۔ چپے چپے پر فورسز اہلکار رائفل اور چھروں والی بندوقیں لیے تیار تھے۔ چھوٹے بچے ہتھیاروں سے لیس فورسز اہلکاروں کو دُور سے دیکھتے تھے۔ مجھے خیال آیا جو لوگ آج پتھر مار رہے ہیں وہ بھی دس سال پہلے اسی طرح فورسز کو دیکھ رہے تھے۔

کشمیر میں پتھراؤ ایک اینٹی نیشنل عمل ہے، اسی لیے پتھراؤ کرنے والوں پر لوہے کے چھرے یا پیلٹ برسائے جاتے ہیں اور اُن کی آنکھیں چھینی جاتی ہیں۔ مظاہرے زیادہ پُرتشدد ہوں تو گولیاں بھی چلتی ہیں۔ لڑکے مرتے بھی ہیں۔ یہ سبھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ ہم پہنچ گئے۔

زخم لینا بھی ہے، اُسے چھپانا بھی ہے’

کشمیر محاصرے کو دو ہفتوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ کرفیو اور بے مثال بندشوں کے بیچ خبر آئی کہ میرے کزن کا نوزائدہ بچہ بیمار ہو گیا اور اُسے ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔

میں گھر سے بھائی کے ساتھ پیدل نکلی۔ سڑکوں پر جیسے جلے ٹائروں اور پتھروں کی کھیتی تھی۔ ہر 100 میٹر پر فورسز نے خاردار تار بچھا کر سڑک کو بند کیا ہوا تھا۔ ہر ناکے پر کافی پوچھ گچھ کے بعد آگے رسائی ہوتی تھی۔

کشمیر
’میں گھر سے بھائی کے ساتھ پیدل نکلی، سڑکوں پر جیسے جلے ٹائروں اور پتھروں کی کھیتی تھی، ہر 100 میٹر پر فورسز نے خاردار تار بچھا کر سڑک کو بند کیا تھا، ہر ناکے پر کافی پوچھ تاچھ کے بعد آگے رسائی ہوتی تھی‘

جیسے تیسے ہسپتال پہنچی اور دیکھا کہ میرا کزن اپنے بیٹے سے زیادہ اس بات کے لیے فکر مند تھا کہ ہسپتال میں زخمیوں کی تعداد کتنی ہے۔ میں نے بھی چاہا کہ پتا کروں۔ لیکن بہت مشکل سے ایک زخمی کو رخصت ہوتے ہوئے دیکھا۔ اُس کو لگا ہم میڈیا والے ہیں۔ میرے بھائی نے پوچھا کہاں ہوا یہ سب؟ جواب کچھ نہیں ملا۔

پھر اُس زخمی کے دوست نے بتایا کہ زخمیوں کا مسئلہ پیچیدہ ہے۔ اُس شخص نے بہت بڑی بات بول دی ’بہن جی یہاں زخمی ہونا بہت مشکل ہے، یہاں زخم لینا بھی ہے اور پھر اُسے چھپانا بھی ہے۔‘

اس بات سے میں سہم سی گئی۔

کچھ پل کے لیے تو میں اپنا غم ہی بھول گئی۔ لیکن میری فکر میں اضافہ ہوا۔ کہیں وہ زخمی تو نہیں؟ اگر ہوا بھی تو اُسے زخم چھپانے ہوں گے، کیا پتہ وہ ڈر سے ہسپتال ہی نہ گیا ہو؟

لیکن وہ تو کبھی جلسے جلوس یا اس طرح کی سرگرمی میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ لیکن کیا پتہ راہ چلتے ہوئے وہ زخمی ہو گیا ہو، اور زخمیوں پر پولیس کی کڑی نظر کے خوف سے اُس نے فسٹ ایڈ بھی نہ لیا ہو؟ یہی سب خوفناک خیال آتے رہے کہ اچانک معلوم ہوا کہ ہسپتال سے تھوڑی دُور آنسو گیس کے دھوئیں سے ایک شہری کا دم گھٹ گیا اور وہ مر گیا۔ میں اس ماحول سے فوراً نکل جانا چاہتی تھی، ورنہ میں ان ہی خیالوں سے مر جاتی۔

واپسی پر میں اسی سوچ میں تھی کہ میں اُسے کیسے ملوں، کہاں ملوں، رابطہ کیسے ہو، کس کے ہاتھ پیغام بھیجوں؟

گھر پہنچی تو ہماری گلی میں آنسو گیس کی بُو نے میرے پھیپڑوں کی خبر لے لی۔ کئی سال پہلے اخبار میں پڑھا تھا کہ پرانے سرینگر میں آنسو گیس کے اکثر استعمال سے ڈاؤن ٹاؤن کے باشندوں کے پھیپھڑے کمزور ہو گئے ہیں اور یہاں کے لوگوں کی بڑی تعداد دمے کی بیماری میں مبتلا ہے۔

کشمیر
’کئی سال پہلے اخبار میں پڑھا تھا کہ پرانے سرینگر میں آنسو گیس کے اکثر استعمال سے ڈاؤن ٹاؤن کے باشندوں کے پھیپھڑے کمزور ہو گئے ہیں‘

راجوری کدل تک کے آنے جانے کے سفر کی تصویریں میرے دل و دماغ پر نقش تھیں۔ تباہی کے مناظر اور سڑک کی دونوں جانب صرف وردی والے مسلح اہلکار تھے۔

میں نے آرام کرنا چاہا لیکن اچانک ایک آئیڈیا آیا اور میں ایک دم اُٹھ کھڑی ہوئی۔ میں نے سوچا کہ اگر میرے پاس بھی فوجی وردی ہوتی تو میں وردی پہن کر، چہرہ ڈھک لیتی اور پورے سرینگر میں اُسے ڈھونڈ لیتی۔ کہیں نہ کہیں تو اُس کا پتہ مل ہی جاتا۔ پھر اس تک اپنا پیغام پہنچانے کی ایک ترکیب میرے ذہن میں آئی۔

‘کبوتر خط کیسے پہنچاتا تھا؟’

پرانی فلموں میں اکثر دیکھا ہے کہ بادشاہ دوسرے ملکوں میں خطوط کبوتر کے ذریعے بھیجتا ہے۔ عاشق معشوق کے بیچ بھی خطوط کا تبادلہ کبوتروں کے ذریعے ہوتا تھا۔ گیم آف تھرونز میں تو پرندے حساس معلومات پہنچاتے دکھائی دیے۔

آج کل ہم ایسی صورتحال میں ہیں کہ جی میں کئی بار آیا کہ کبوتروں کی ایک جوڑی کہیں سے منگواؤں تاکہ پیغام تو کہیں پہنچے یا کہیں سے کوئی پیغام آئے تو سہی۔ مگر میں اب بھی یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا واقعی کبوتر خط پہنچاتا تھا، اور اگر پہنچاتا تھا تو کیسے؟

کشمیر
’آج کل ہم ایسی صورتحال میں ہیں کہ جی میں کئی بار آیا کہ کبوتروں کی ایک جوڑی کہیں سے منگواؤں تاکہ پیغام تو کہیں پہنچے یا کہیں سے کوئی پیغام آئے تو سہی‘

انٹرنیٹ اور فون رابطوں پر پابندی نے ہمارے سمارٹ فونز کو ایک مہنگی گھڑی میں بدل دیا تھا۔ میں ہر بار فون کے ٹاورز چیک کرتی، کچھ نہیں تھا۔ مجھے لگا میں پاگل ہو جاؤں گی۔

ہم کشمیریوں کا اکیسویں صدی سے تعارف پہلے پہل ٹی وی سے اور بعد میں انٹرنیٹ کے ذریعے ہوا تھا۔ میں نے پہلی مرتبہ فیس بک 2010 میں استعمال کیا تھا۔ لیکن اُسی سال کشمیر میں حراست میں ہلاکتوں کے خلاف تحریک چلی اور چار ماہ تک انٹرنیٹ بند رہا۔

پانچ سال میں انٹرنیٹ کا سفر فیس بک سے انسٹاگرام تک پہنچ گیا تھا۔ پھر 2016 میں بھی کئی ماہ تک انٹرنیٹ بند رہا۔ گذشتہ دس برسوں کے دوران ہر تین ماہ بعد کسی نہ کسی واقعے کے بعد کئی روز تک انٹرنیٹ بند رہتا تھا۔ ہمارے یہاں براڈ بینڈ تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ لینڈ لائن اور براڈ بینڈ کو بھی بند کیا گیا ہو، 2019 ماضی کی بندشوں کے مقابلے میں نہایت تکلیف دہ ہے۔

زندگی کبوتروں کے زمانے جیسی ہے، لیکن کہیں کوئی کبوتر نہیں جو میرا خط پہنچا دے۔

کئی سال پہلے میری ملاقات پروینہ آہنگر سے ہوئی تھی۔ اُن کا بیٹا بیس سال سے لاپتہ ہے۔ انھوں نے گمشدہ افراد کے رشتے داروں پر مشتمل ایک تنظیم بنا لی ہے۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ دوسری عورتوں کے پیاروں کی تلاش میں سرگرم ہیں۔ آج میں سوچتی ہوں کہ کبوتر کو ایڈریس کیسے ملتا تھا۔ کیا اُسے ٹرین کیا جاتا تھا، وہ پہلے سے کسی مقام کو جانے بغیر خط کو کیسے مطلوبہ جگہ تک پہنچاتا تھا۔

کشمیر
’پولیس اور فوج کے حکام پروینہ اور ان کے ساتھیوں سے کہتے ہیں کہ اُن کے بیٹے جاوید کو کسی نے گرفتار نہیں کیا‘

پولیس اور فوج کے حکام پروینہ اور ان کے ساتھیوں سے کہتے ہیں کہ اُن کے بیٹے جاوید کو کسی نے گرفتار نہیں کیا۔ بیٹھے بیٹھے میں یہ سوچنے لگی کہ کیا کوئی کبوتر پروینہ کے بیٹے تک خط پہنچا سکتا ہے؟

یقین مانیے میں نے خط بھی لکھا، اور اُس کو کئی تہوں میں تعویز کی طرح باندھا بھی۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک باغ ہے، جہاں بہت سارے کبوتر دانا چگنے آتے ہیں۔ میں نے بھائی کو بولا بھی کہ ایک کبوتر کو پکڑ کے لاؤ۔

کیا ہمیں حالات نے کئی صدیاں پیچھے دھکیل دیا ہے؟ کیا ہمیں مرغیوں کی جگہ کبوتر پالنے ہوں گے؟ کیا یہ کبوتر ہمارے درد و الم کی داستانیں دلی، واشنگٹن اور اقوام متحدہ تک پہنچا سکیں گے؟

مجھے سول سروس کے امتحان کی تیاری کے دوران اقبالیات کے سرسری مطالعے کا موقعہ ملا تھا۔ ایک شعر برمحل معلوم ہوتا ہے:

اُڑا لی طوطیوں نے، قمریوں نے، عندلیبوں نے

چمن والوں نے مل کر لُوٹ لی طرز فغاں میری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp