سپریم کورٹ: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی رک گئی


سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج کریم خان آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس پر جاری کارروائی روک دی گئی ہے۔

اس بات کا اعلان پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بدھ کو نئے عدالتی سال کے آغاز کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ان صدارتی ریفرنسز کے خلاف بہت سی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیں لہذا پہلے ان درخواستوں پر فیصلہ ہوگا اور پھر اس فیصلے کی روشنی میں سپریم جوڈیشل کونسل ان ججز کے بارے میں صدارتی ریفرنس پر کارروائی کرے گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر کارروائی رک جانے کے بعد وہ دوبارہ مقدمات کی سماعت کریں گے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ہونے والی کاز لسٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تین رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے ہیں جو مختلف مقدمات کی سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف 6 سے زیادہ درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیں جس میں اس صدارتی ریفرنس اور اس ریفرنس کی سماعت کرنی والی سپریم جوڈیشل کونسل کے طریقہ کار پر اعتراضات اُٹھائے گئے تھے۔

یہ درخواستیں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر کرنے کے علاوہ ان میں خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست بھی شامل ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی تھی کہ ان کی درخواست کی سماعت سپریم کورٹ کے ’ایماندار‘ جج کریں جو سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ نہیں ہیں۔

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی اس کونسل میں موجودگی پر بھی اعتراضات اُٹھائے تھے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک صدارتی ریفرنس خارج کردیا ہے جو کہ صدر مملکت کو خط لکھنے کے بارے میں تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف بیرون ممالک میں جائیداد کو ظاہر نہ کرنے کے بارے میں صدارتی ریفرنس کی کاپی حاصل کرنے اور اس ریفرنس کی میڈیا پر تشہیر کے بارے میں صدر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں سپریم کورٹ کے وہ جج صاحبان شامل ہوں گے جو سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ نہیں ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا ایک بینچ ان درخواستوں کی سماعت کرے گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر کے پاس یہ آئینی اختیار ہے کہ وہ اعلیٰ عدالتوں کے کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس بھیج سکتے ہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل آئین کے مطابق اس ریفرنس پر کارروائی کرنے کی پابند ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر کی طرف سے بھیجا گیا ریفرنس یا ان کی رائے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔

اُنھوں نے کہا کہ اب سپریم جوڈیشل کونسل میں 9 ریفرنسز زیر سماعت ہیں جبکہ باقی ریفرنسز نمٹا دیے گئے ہیں تاہم چیف جسٹس نے ان ججز کے نام نہیں بتائے جن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی چل رہی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کرنا اس کونسل کے چیئرمین اور اس کے ارکان کے لیے ناخوشگوار عمل ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ ججز اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے ۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوگ سپریم جوڈیشل کونسل سے انصاف کے علاوہ اور کسی چیز کی امید نہ رکھیں۔

اُنھوں نے کہا کہ کچھ لوگ جوڈیشل ایکٹو ازم نہ ہونے کی وجہ سے آواز اُٹھا رہے ہیں جبکہ اس سے قبل یہی لوگ جوڈیشل ایکٹو ازم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔

اُنھوں نے کہا کہ صرف قومی اہمیت کے معاملے پر از خود نوٹس لیا جائے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ احتساب کا عمل سیاسی انجینئرنگ ہے اور اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہییں۔

چیف جسٹٹس کا کہنا تھا کہ کریمنل جسٹس سسٹم میں اس وقت تک بہتری نہیں آسکتی جب تک پولیس میں اصلاحات نہیں لائی جاتیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp