جب تک سندھو تب تک سندھ؟


پچھلے میں گیانی وہ جو ایک رات سے دوسری رات کو جنم لیتا دیکھ پائے۔ وسعت اللہ خان ہماری دھرتی کے ایسے ہی مہاپرش ہیں۔ یہ تحریر فروری 2015 میں لکھی تھی۔ جب سندھ کی زمین پر ایک رات غروب ہو رہی تھی اور اگلی رات ابھی سازش کی زنبیل میں تھی۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے اس رات کا ارادہ بتا دیا ہے۔ وسعت اللہ خان نے فروری 2015 ہی میں بتا دیا تھا کہ سندھ والے سندھو کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہونے دیں گے۔ سندھ کا انضمام قبول نہیں کیا، تو ٹکڑے کیوں ہونے دیں گے۔ (و – مسعود)

***     ***

وسطی ایشیائی آریاؤں سے لے کے انگریز چارلس نیپئر تک سندھ پر جتنے حملے ہوئے وہ یک طرفہ تھے لیکن سندھ کو پہلی بار سہ طرفہ حملے کا سامنا ہے۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ ، پیپلز پارٹی ( زرداری ) اور مذہبی شدت پسندی کا حملہ۔

اسٹیبلشمنٹ کا حملہ اٹھارہ سو سینتالیس سے جاری ہے جب اگلے نواسی برس کے لیے یہ تالپور ریاست بمبئی پریذیڈنسی میں غائب ہوگئی اور پھر سندھیوں نے اس امید پر پاکستان بننے کے عمل میں ہر طرح سے حصہ لیا کہ ایک مسلمان ملک میں باب السلام کو اس کے علیحدہ ’’سب اسلامک کلچر’’کے ساتھ سانس لینے کا موقع مل جائے گا اور اسے ماضی کی طرح محض ایک چراگاہ، شکار گاہ اور گذرگاہ نہیں سمجھا جائے گا۔ لیکن ’’س‘‘ سے سندھ اور ’’س‘‘سے سندھ کا سیدھا پن دونوں ہی سندھ کے لیے مصیبت ہوگئے۔

سن انیس سو چھتیس میں بمبئی پریذیڈنسی سے نجات کے صرف اٹھارہ برس بعد سندھ دوبارہ ایک آزاد ملک کی ون یونٹ دلدلی اسکیم میں اگلے سولہ برس کے لیے غائب ہوگیا ۔ یہ ایک ایسا اجر اور حسنِ سلوک تھا جس نے ان سندھیوں کو بھی علیحدگی کی راہ پر ڈال دیا جنہوں نے تحریکِ پاکستان کے ہراول دستے میں شامل ہو کر بیس فیصد غیر مسلموں میں سے بیشتر کو دھرتی چھوڑنے پر مجبور کیا اور نئے بے زمینوں کو گلے لگایا اور یہ سب کام نہایت خوش نیتی اور اخلاص کے ساتھ ہوا۔

مگر اسٹیبلشمنٹ تو اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے۔ مغلوں کے آگرہ کی اسٹیبلشمنٹ سے لے کر اسلام آبادی اسٹیبشلمنٹ تک ہر آنے والا جانے والے کی روایت حکمرانی کو بدلنے کے بجائے آگے ہی بڑھاتا ہے۔ سو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سندھ پر پچھلے تیرہ سو برس سے بصرہ، آگرہ، کابل، بمبئی، دہلی اور اسلام آباد سے حکمرانی کرنے میں کبھی کسی کو مشکل نہیں ہوئی کیونکہ مارکیٹ میں ریموٹ کنٹرول چلانے والے مقامی سیل ہر وقت باآسانی و با رعایت دستیاب تھے اور ہیں۔

ہاں سندھ کو صدیوں پر پھیلی غلامی سے ذہنی و سیاسی طور پر آزاد کرانے اور وسائل کو چند ہاتھوں سے نکال کے بہت سے ہاتھوں میں دینے کا ایک موقع ذوالفقار علی بھٹو نامی ایک مقامی کو ملا ضرور تھا مگر یہ موقع بھی خودداری کے ساتھ جینے کا چلن عام کرنے کے بجائے سیاسی تھیلے میں بھری اقتصادی ریوڑیاں اپنے اپنوں میں بانٹنے اور سندھیوں کو سندھیوں سے اجنبی کرنے کی کوششوں میں ضایع ہوگیا اور مختصر عرصے کے لیے کھلنے والی قسمت کی کھڑکی جانے کب تک کے لیے بند ہوگئی۔

زرعی اصلاحات کم ازکم تین دفعہ پورے ملک میں ہوئیں لیکن اس کے سب سے کم اثرات سندھ پر پڑے۔ صنعتی اصلاحات کم ازکم دو دفعہ پورے ملک میں ہوئیں لیکن ان اصلاحات کے نتیجے میں انسانی و قدرتی وسائل کی کثرت کے اعتبار سے جتنی کم صنعتی ترقی سندھ میں ہوئی شائد ہی کہیں ہوئی ہو۔ جو صوبہ پاکستان کا صنعتی انجن کہلاتا تھا وہ اصلاحات کے بعد صنعتی مال گاڑی کے آخری ڈبے میں بدل گیا۔ کسی کو یقین نہ آئے تو ایوب خانی دور تک کے لانڈھی، سائٹ، کوٹری اور حیدرآباد کے صنعتی عروج کے زوال کی داستان کسی بوڑھے ورکر سے آج بھی سن سکتا ہے اور چالیس سال سے قائم نوری آباد کے انڈسٹریل زون کی زوالیہ ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔

اب تو اس کی دیوار سے ہاؤسنگ اسکیمیں بھی زبان نکالے جھانک رہے ہیں۔ البتہ پنوں عاقل سے کموں شہید تک جو صنعتی انقلاب آیا ہے اسے نیشنل ہائی وے کے دوسرے کنارے پر کھڑا سندھی مانہو بس دیکھ دیکھ کے خوش ہی ہو سکتا ہے۔

پھر بھی سندھ مالامال ہے۔ اتنی زمینیں بکنے، اتنی بدعنوانی،اتنی اقربا پروری، اتنی ضمیری خرید و فروخت، اتنی تعمیراتی ٹھیکیداری اور اتنی خواب گر بکواس اور اتنی داشتہ گیری و کمیشن ایجنٹی کے باوجود سندھ کا مال ختم ہی نہیں ہوتا۔ اگر آج سترہ حملوں میں سومناتھ کا سونا جمع کرنے والا محمود عزنوی زندہ ہوتا تو زرداریوں اور حواریوں کی چلم بھر رہا ہوتا۔

3 فروری 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).