وفاقی حکومت  نے کراچی کے انتظامی کنٹرول کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا


وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ کراچی پر وفاق کے کنٹرول کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کراچی سمیت پورے سندھ کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ آرٹیکل 149 (4) کے تحت وفاق کی جانب سے کراچی کو کنٹرول کرنے کے لیے سندھ حکومت سے درخواست کریں گے اگر سندھ حکومت نہیں مانتی توپھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔

کراچی کو بہتر کرنے کے لیے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ اب کراچی کے حوالے سے مداخلت کرنا ضروری ہو گیا ہے، ہم ایک قانونی مسودہ تیا ر کر رہے ہیں جو ہفتے کو وزیراعظم کے سامنے پیش کریں گے کیونکہ کراچی میں نہ کچرا اٹھ رہا ہے، اور نہ پبلک ٹرانسپورٹ ہے اور نہ ہی انفرااسٹرکچر موجود ہے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کر تے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ 11 سال میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے کراچی، لاڑکا نہ، کنڈیارو سمیت تمام شہروں دیہات کو تباہ و برباد کر دیا ہے اب ضروری ہو گیا ہے کہ وفاق اس میں مداخلت کرے۔ ہم تمام آئینی اور قانونی راستے اختیار کریں گے۔ وزیر اعظم کو کراچی کے حالات پر تشویش ہے اس لیے انہوں نے وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کیا تھا جس میں فیصلے کے مطابق کراچی کے حالات بہتر کر نے کے لیے ایک اسٹرٹیجک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کا مجھے سربراہ بنایا گیا ہے۔

وفا قی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم ہفتے کو کر اچی کا دورہ کریں گے جہان انہیں اس سلسلے میں ایک ڈرافٹ پیش کیا جائے گا جس میں آرٹیکل 149(4)کے تحت سندھ حکومت سے درخو است کی جائے گی کہ شہر کے حالات خراب ہیں اور ہم اس کا کنٹرول چاہتے ہیں۔ یہ مسودہ وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد پیش کیا جائے گا۔ اگر سندھ حکومت ایسا کرنے نہیں دیتی تو پھر آرٹیکل 141 کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔

وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ اگر کراچی اور بلکہ پورے سندھ کو ٹھیک کرنا ہے تو اس طرح نہیں چلے گا کیونکہ اس حکومت کے کام کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کراچی پورے سندھ میں کتنا ریونیو دیتا اور کراچی پر خرچ کتنا ہوتا ہے اس کا تناسب متوازن نہیں ہے۔ اگر 11 سال میں ترقی کے لیے خرچ نہیں ہو رہا ہو اور مردم شماری بھی غلط ہو اور ایک کروڑ 60 لاکھ آبادی کے حساب سے بھی اس پر خرچ نہیں کیا گیا تو 18 ویں ترمیم کے بعد کیا آئینی ترکیب ہو، اس کے لیے وزیراعظم نے فروغ نسیم کو کمیٹی میں شامل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی میں 6 اراکین پاکستان تحریک انصاف اور 6 اراکین متحدہ قومی موومنٹ سے ہیں اور ایف ڈبلیو او سے بھی ہیں۔ کمیٹی میں مجھے ڈالنے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ مختصر دورانیے، درمیانی اور طویل دورانیے کی حکمت عملی کیا ہو کہ کراچی میں اور مقامی حکومت پر کیسے خرچ ہو، اس کا حل نکالنا ہے۔ میئر کراچی کے اختیارات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ میئر اور منتخب اراکین سے اختیارات کی منتقلی 140 اے اور آرٹیکل 17 سے متصادم ہے اور اب اس کے اندر سپریم کورٹ کا کردار ہونا ہے اور سپریم کورٹ نے وضاحت دینی ہے۔ اس حوالے سے مقدمہ عدالت میں زیرالتوا ہے۔ پی ٹی آئی اس مقدمے میں فریق بننے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ 184 ون ہے جس کے تحت اگر صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان کوئی تنازع ہو تو سپریم کورٹ کی حدود میں براہ راست شامل ہے اور سپریم کورٹ کو رہنمائی کرنا ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ واٹر بورڈ، ایم ڈی اے، لیاری ڈیولپمنٹ، کے ڈی اے، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کی اکائی حکومت سندھ نے اپنے پاس رکھی ہے اور اس کا مقصد صرف کرپشن کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت 149 فور پہلے دن استعمال کرتی تو پھر اس پر صوبائی خودمختاری پر حملہ کرنے کا الزام آتا۔ اب یہ صحیح وقت ہے، اس سے پہلے ہوتا تو اس پر سیاست کی جاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).