پاکستان کے آبی مسائل


آ ج، ہم پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے آنے والے کل کے بارے میں سوچیں۔ ترقی یافتہ قوموں کا ”آج“ ہمیں اس لیے سنہرا دکھائی دیتا ہے کہ انھوں نے برسوں پہلے مستقبل کے بارے میں سوچاتھا۔ جہاں بہت سے موضوعات سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں، جن پر سیاسی جماعتیں حسبِ توقیق اپنی سیاست چمکاتی ہیں، وہاں کچھ موضوعات اس طرز کے بھی ہوتے ہیں جن پر سیاست چمکانا وطن دشمنی کے مترادف ہے۔ ایسا ہی ایک موضوع ارض وطن میں زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح ہے۔

چونکہ ہم ایک ”ذمہ دار“ ملک ہیں اس لیے ہم اس قومی ایشو پرآنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ ”ذمہ دار“ سے میری کیا مراد ہے۔ اس کی وضاحت میں ایک لطیفہ پیش خدمت ہے۔ کسی تعمیراتی کمپنی میں سکھ انجینئر انٹرویو دینے گیا تو انٹرویو لینے والے نے سکھ انجینئر سے سوال کیا کہ آپ اپنی کوئی خوبی بتائیں۔ سکھ انجینئر بولا، ”میں بہت ذمہ دار شخص ہوں میں نے دو تین کمپنیوں میں کام کیا ہے۔ دوران تعمیر جب بھی کوئی نقصان ہوا ہے کمپنی انتظامیہ نے مجھے ہی ’ذمہ دار‘ ٹھہرایا ہے۔ اس لیے میں بہت ذمہ دار شخص ہوں۔“

جی بات ہورہی تھی کہ ہم چونکہ“ ذمہ دار ”ملک ہیں اس لیے اس قومی ایشو پر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ ورنہ اگر آبی ذخائر کے حوالے سے ملکی اور غیرملکی اداروں کی رپورٹس دیکھیں تو ہول اٹھنے لگتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2025 میں پاکستان پانی کی شدید قلت کا شکار ہو جائے گا۔ ہمارے پاس 30 دن کا پانی جمع ہے جبکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق یہ ذخیرو 120 دن کا ہونا چاہیے۔

پاکستان کے پاس 150 چھوٹے بڑے ڈیمز ہیں جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں 3200 چھوٹے بڑے ڈیمز ہیں۔ ان اعداد وشمار کو دیکھ کر صاف دکھائی دے رہا ہے کہ مسقتبل قریب میں پانی کا بحران سر اٹھائے گا لیکن اس کے باوجود ارباب اختیار اور سیاسی جماعتیں جو ”خداداد صلا حیتوں“ کی بدولت نان ایشو کو ایشو بنا کر پانی کی لہریں گنتی رہتی ہیں بلا شبہ تمام سیاسی جماعتیں اس قومی اورانسانی مسئلے پر مجرمانہ خاموشی کا شکار ہیں۔ زیادہ ذمہ داری ارباب اختیار کی ہے کہ وہ مستقبل میں پانی کے بحران سے بچنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ضروری اور موثر اقدامات کریں۔

اس سلسلے میں پہلا ضروری امر یہ ہے کہ شعبہء زراعت میں آب پاشی کا جدید نظام متعارف کروایا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں قلتِ آب سے بچنے کے لیے آب پاشی کا نظام جدید خطوط پر استوار کیا جا چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آب پاشی کے روایتی نظام کے تحت ایک کھیت چھ گنا زائد پانی سے سیراب ہوتا ہے۔ اب وقت کی اہم ضرورت ہے کہ چھوٹے بڑے نئے ڈ یمز بنائے جائیں۔

ہمسایہ ملک بھارت کے دیدے کا پانی ڈھل چکا ہے۔ تب ہی تو بھارت ارض پاک کو نقصان پہنچانے کے لیے بارہا آبی جارحیت کر چکا۔ جس کے نتیجے میں ہماری لا تعداد کچی بستیاں اور کھڑی فصلیں ملیا میٹ ہو چکی ہیں۔ نئے ڈیمز کی تعمیر سے ہمارے دیہات اور ہماری فصلیں بھی محفوظ ہو جائیں گی۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری زرعی پیداوار کا انحصارپانی کی مطلوبہ مقدار کی دستیابی پر پر ہے۔ اگر ہم واقعی مستقبل میں غذائی قلت سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں سنجیدگی آبی مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہو ں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).