مرد اور عورت ایک دوسرے کے بارے میں پوزیسو کیوں ہوتے ہیں


آداب!

امید ہے خیریت سے ہوں گے۔ پہلے خط میں پوچھے گئے سوال کا آپ نے بہت اچھا جواب دیا۔ امید ہے پڑھنے والوں کو بھی پسند آیا ہو گا۔ معاشرے میں ایسے سوالات اٹھاتے رہنا چاہیے یہ میرا اپنا خیال ہے۔ سوال اٹھانے سے ان کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش ہوتی ہے۔ جب جستجو ہو گی تو شعور بھی بڑھے گا۔ آپ تو ویسے ہی شعور پھیلانے میں جتے رہتے ہیں۔

میں اپنے ارد گرد بہت سی چیزیں ہوتے دیکھتی ہوں جو مجھے سوال کرنے پہ مجبور کرتی ہیں۔ ایک بار آپ نے خواتین کے پوزیسو ہونے کے بارے ایک پوسٹ کی تھی۔ میں اسی کو جاری رکھتے ہوئے کچھ باتیں پوچھنا چاہتی ہوں۔ جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے کہ عورت یا مرد دونوں ہی اپنے پارٹنر کے حوالے سے کافی پوزیسو ہوتے ہیں۔ اس کی وجوہات میں مجھے جو وجہ نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ بچپن میں دونوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ ایسا ہوا ہوتا ہے جو ان کو پوزیسو بنا دیتا ہے۔

اپنے پارٹنر کو کھونے کے خوف سے وہ ایسی حرکات بھی کر جاتے ہیں جو نارملی نہیں کرتے۔ عورتوں کی نفسیات میں، مجھے لگتا ہے، ایک خوف سرایت ہوا ہوتا ہے۔ چونکہ ان کی تربیت ہی مرد کو محافظ باور کرواتے ہوئے ہوتی ہے، تو اس صورت میں وہ نہیں چاہتیں کہ معاشرہ ان کو بنا مرد کے دیکھے۔ میں نے ایسی عورتیں بھی دیکھی ہیں کہ جو خاوند کے نشئی، آوارہ و جوئے باز ہونے کو بھی اس لیے قبول کر لیتی ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ مرد کا نام تو جڑا ہے۔ اور گھر میں مرد تو ہے چاہے جیسا بھی ہے۔ ورنہ معاشرہ تو ان کو ٹافی گولی سمجھ کے کھا جائے گا۔

تو ایسی سوچ یا تربیت کے ساتھ اگر عورت مرد کے بارے پوزیسو ہوتی ہے تو شاید یہ نارمل ہے۔ گھر، بچے اور سسرال کے کام نمٹانے کے بعد عورت کو مرد کے لمس و پیار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں مرد کی طرف سے عدم توجہ کا رویہ عورت کو ذہنی طور پہ پریشان کر سکتا ہے۔ یہی صورت حال مرد کے لیے بھی ہے اگر اسے بھی توجہ نہ دی جائے تو وہ بھی کئی مسائل کا شکار ہو جائے گا۔

یہ تو ہے شادی شدہ مرد و عورت کے مسائل۔ اب کچھ مسائل ریلیشن شپ میں رہنے والوں کے بھی ہوتے ہیں۔ لڑکوں کو یہ ہوتا ہے کہ فلاں جگہ کیوں گئی؟ ایسے کپڑے کیوں پہنے؟ مجھے فلاں بات نہیں بتائی۔ لڑکیوں کے مسائل میں یہ ہوتا ہے کہ فلاں لڑکی کو کیوں اتنا دیکھ رہے تھے؟ دوستوں کو اتنا ٹائم دیا۔ مجھ سے روڈ ہو کے بات کی۔ میرے لیے وقت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس مسئلے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں اورریلیشن شپ یا پارٹنر کے پوزیسو ہونے کے بارے آپ کا کیا خیال ہے۔

جواب کا انتظار رہے گا اوراگلے خط میں بہت خطرناک سا سوال کرنا ہے میں نے۔ اس کے لیے تیار رہیے گا۔

اپنا بہت خیال رکھیے گا۔

آپ کی شاگرد و دوست

نوشی بٹ

2۔ ستمبر۔ 2019


ڈئیر نوشی!

اگر میں یہ کہوں تو کچھ غلط نہیں ہوگا کہ اپنے سوال کا اچھا خاصا جواب تو آپ نے خود ہی تلاش کرلیا اور اس کی پہلی وجہ تو آپ کا عورت ہونا ہے اور دوسری وجہ احساس سے لبریز بے چینی جو یوں سمجھیے کہ مسائل کو اندر تک دیکھنے کے لیے الیکٹرانک مائیکروسکوپ کا کام کرتی ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ انسان کی حیثیت ایک انتہائی کمپلیکسڈ آرگینک پراڈکٹ جیسی ہے جسے جمود کی حالت میں سٹڈی کرنا ممکن نہیں۔ سو آپ کی طرح میں بھی کوشش کرکے دیکھ لیتا ہوں، ممکن ہے میرے جواب سے کچھ نئے زاویے منکشف ہوجائیں۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات ماننا ہوگی کہ یہ جس تہذیب پہ ہم بڑا فخر کرتے ہیں اس نے مرد اور عورت کے درمیان فطری یعنی بایولاجیکل فرق کو جینڈر جیسے غیر فطری بلکہ انسان دشمن فرق میں تبدیل کردیا ہے۔ اس تہذیب نے محض جسمانی ساخت کی بنیاد پر مرد کو سختی، کرختگی، سنجیدگی، تفکر، ٹھہراؤ اور بہادری جیسے اوصاف کا حامل منوالیا۔ جبکہ اس کے برعکس نزاکت، نرمی، جذباتیت، کم عقلی، عیاری، سازش اور بزدلی جیسے اوصاف عورت کے وجود پر چسپاں کردیے۔

اور کہا گیا کہ زندگی اپنی مشکلات کی بنا پر چونکہ عقل مندوں اور بہادروں کا میدان ہے اور عورت اس میدان میں آنے کی اہل نہیں ہے۔ سو اُسے ایک نازک شے کے طور پر اس میدانِ کارزار سے الگ گھر کی محفوظ چار دیواری میں رہنا ہوگا۔ اس تفاوت کی ابتدا شکار کے زمانے سے ہوئی جو بے شمار مہین اور بظاہر دلکش صورتیں بدلتے ہوئے فیوڈل دور میں اپنے عروج کو پہنچا۔

سرمایہ دارانہ دور میں ترقی کی ضرورتوں نے علم کے فروغ کا راستہ کھولا تو مرد اور عورت کے بیچ تفاوت بھی زیرِبحث آنے لگا۔ مشین بنانے کے لیے الوہی علم کی بجائے عقل اور اکتسابی علم اور تجربہ درکار تھے جس کا اثر سماجی بنتر پر بھی پڑا۔ مشین کی طاقت نے سب سے پہلے جسمانی طاقت کی کہانی کا کھوکھلا پن واضح کیا جس کی بنیاد پر مرد قرن ہا قرن سے آقائیت کے منصب پر فائز چلا آتا تھا۔ آٹو میٹک مشین چلانے کے لیے جسمانی طاقت کی بجائے ذہنی صلاحیت درکار تھی جس سے مرد اور عورت دونوں متصف تھے۔

یہی وہ موڑ تھا جب گھر سے باہر مرد کے بلاشرکت غیرے راج کو پہلی زک پہنچی۔ مگر ایک فیکٹر ابھی بھی پوری شدت سے موجود تھا اور وہ تھا کلاس سسٹم۔ یعنی ایک محدود تعداد آجر اور باقی کے لاتعداد انسان اجیر۔ فیوڈل سسٹم کے خاتمے سے جہاں ایک طرف کئی طرح کے عریاں ظالمانہ استحصال کی صورتیں معدوم ہورہی تھیں وہیں نئے استحصالی حربے بھی وجود پذیر ہورہے تھے جو اتنے مہین اور پرکشش تھے کہ خود ان حربوں کے شکار افراد کے لیے انہیں بطور استحصال باور کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔

دلچسپ بات یہ کہ ان حربوں کا بھی آسان ترین شکار عورت ہی تھی۔ سرمایہ داری کی بنیادمنافع کی تیزتر گروتھ اور مناپلی پر ہے۔ اس کے لیے انسانی جذبات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس کا بھلا اسی میں ہے کہ انسانوں کو بھی مشینوں اور اشیاء کی طرح برتا جائے۔ فیوڈل دور میں انسانوں کے ساتھ بے حسی کا رویہ صرف حکمرانوں اور جاگیرداروں کا خاصہ تھا جبکہ سرمایہ داری نظام نے اس بیماری کو عام انسانوں تک پھیلادیا ہے۔ مقابلے اور ترقی کے نام پر اس نے رشتوں کے درمیان چمچماتی اشیاء رکھ دی ہیں اور ہم ان اشیاء کی خاطر کسی بھی وقت اپنے عزیز ترین رشتوں کو قربان کرنے پر تیار ہوسکتے ہیں۔

مرد کے ہاتھوں وجود پذیر ہونے والی تاریخ نے عورت اور مرد کے درمیان ایک غیرفطری دوئی اور دوری کو بڑھاوا دیا جس کے نتیجے میں عورت کا وجود ایک پُراسرہیولے میں بدلتا چلا گیا۔ اس دوری اور دوئی نے مرد کی نارمل جنسی خواہش کو ہوس کی حد تک بڑھا کر اس کے انسان بننے کی راہ کھوٹی کردی۔ مرد کی یہ بھڑکی ہوئی خواہش سرمایہ داروں کے لئے روپیہ بنانے کا بہترین ذریعہ بن گئی جس کے لیے انہوں نے پورن موویز اور سیکس ٹوائز کی انڈسڑی کو خوب فروغ دیا۔ جنسی خواہش کی اس بھڑک نے عورت کو محض ایک سیکس اوبجیکٹ میں بدل کر رکھ دیا۔ غور کیجیے تو آج کل ہمارے ہاں یہی کام فلم اور تھیٹر سے وابستہ گھٹیا کاروباری افراد کررہے ہیں۔

سیکس کی جبلت کو ایسے معاشروں میں زیادہ آسانی سے بھڑکایا جاسکتا ہے جہاں اسے دبانے کا کام ایک مشن کی صورت اختیار کرجائے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو گروہ اس مشن کے سرخیل ہوتے ہیں انہی کے ہاں سے بداخلاقی کے قصے زیادہ برآمد ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے جب جنسی تعلق سے دو آزاد افراد کی مرضی کو منہا کردیا جائے تو پھر ریپ یا زنابالجبر کی صورتیں عام ہوجایا کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے اس باب میں ہمارا معاشرہ ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ بغور دیکھا جائے تو یہ ملکیتی جذبے کی ہی ایک بھیانک شکل ہے جس کا شکار بچے اور وہ عورتیں بنتی ہیں جنہیں مرد کے اختراع کردہ سماجی ضابطوں کی مدد سے اس قدر کمزور بنادیا جاتا ہے کہ وہ شکائت کرنے کی ہمت بھی کھو بیٹھتی ہیں۔ ہمارے ہاں طاقت، ملکیت اور مردانگی ہم معنی الفاظ بن چکے ہیں۔

یہ جسے ہم وفا کا نام دے کر آہیں بھرتے ہیں، یہ تو فیوڈل دور کی نشانی ہے جب اشیاء سے کہیں زیادہ انسانی جذبے اہم ہوا کرتے تھے۔ مگر کیا کریں کہ انسانی نفسیات ماضی کی اسیری سے نکلنے میں بڑا وقت لیتی ہے۔ جبکہ ہم تو ابھی بھی فیوڈل اور سرمایہ دارانہ نظام کے ملغوبہ کلچر میں رہ رہے ہیں۔ نت نئی چمچماتی اشیاء نے ہمیں اتنا مسحور کرلیا ہے کہ اب انسانی جذبے ہماری توجہ کے مستحق نہیں رہے۔ بلکہ اب تو یہ سوچ راسخ ہوچکی ہے کہ دولت سے محبت بھی خریدی جاسکتی ہے۔

اب ہم آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ ریلشن شپ میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے بارے میں پوزیسو کیوں ہوتے ہیں؟ دیکھو بھئی صاف سی بات ہے کہ اشیاء کے ساتھ ہمارا تعلق ملکیت کا ہی ہوتا ہے۔ ہمیں مکمل سہولت حاصل ہوتی ہے کہ ہم انہیں جس طرح چاہیں استعمال کریں کیونکہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی جانب سے ہمیں کسی بھی طرح کے احتجاج یا انکار کا سامنا نہیں ہوگا۔ یعنی اشیاء کے ساتھ ہمارا تعلق سراسر یک طرفہ اور ہماری مرضی کا ہوتا ہے۔

مرد ہزار ہا برس سے مردانگی کے افسانے کی بنیاد پر عورت کے ساتھ بھی اسی رویے کا خوگر چلا آتا ہے۔ اس نے مسلسل کوشش کی کہ الوہی تصورات کی مدد سے عورت کو اس کی ذہنی صلاحیتوں کا ادراک نہ ہونے دے مگر علم کے پھیلاؤ نے اس کے اس ملکیتی جال میں بہت سے رخنے پیدا کردیے ہیں۔ اورعورت کے اپنے وجود کو تسلیم کرنے کے مطالبے نے اسے اچھا خاصا جھنجھلا کے رکھ دیا ہے۔ اب مذہب اور خدا کے خوف کا حربہ بھی ناکارہ ہوتا جارہا ہے۔ اب یہ بات عورت کی سمجھ میں آنے لگی ہے کہ اس کی زنجیریں فطرت کی بجائے سماج کی دین ہیں جنھیں توڑنا نہ تو جرم ہے نہ گناہ۔ مگر چونکہ معیشت ابھی تک مرد کے قبضے میں ہے سو وہ ابھی تک عورت کے وجود پر ممکنہ حد تک اپنی ملکیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔

عورت کے شوہر بارے پوزیسو ہونے کی وجہ شاید محبت نہیں بلکہ گھر سے باہر وہ مواقع ہیں جن سے وہ بوجوہ محروم ہے۔ مزید یہ کہ وہ معاشی طور پر اس کی محتاج ہے۔ وہ جانتی ہے شادی کے بعد وہ شوہر کے لیے کشش کھوتی جارہی ہے۔ اور اب شوہر کا رویہ کا بھی ایسا نہیں رہا کہ وہ اپنا آپ بخوشی اس کے حوالے کرنے پر طرف مائل ہوسکے۔ دونوں کے بیچ اس سرد مہری یا بڑھتی ہوئی بیگانگی کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ مزاج اور دلچسپیوں کا فرق ہے جسے صرف جسمانی کشش ختم نہیں کرسکتی۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2