ایف آئی آر ہماری مرضی کی ورنہ صلاح الدین بنا دیں گے


یہ اسی تھانے کے سامنے کی روڈ تھی جہاں آج سے چند ماہ قبل زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کی جانیوالی معصوم فرشتہ کے والدین کئی روز ایف آئی آر کی بھیک مانگتے رہے تھے اور ایس ایچ او صاحب ان کی معصومیت و عزت کا مزید کھلواڑ کرتے رہے۔

اسی روڈ پر محمد علی، جس نے قسطوں پر بائیک اس لئے لیا تھا کیونکہ گھر میں آخری سانسیں لیتی ماں کی نجانے کب طبعیت بگڑ جائے کچھ معلوم نہیں تھا، غربت اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتی تھی کہ گاڑی پر ماں کو ہسپتال لے جاتا لہذا بائیک ماں کی اٹکتی سانسوں کی جلد بحالی کے لئے اسپتال پہنچانے کا واحد آسرا تھی۔

محمد علی گھر کی جانب بڑھ ہی رہا تھا کہ تین نقاب پوش ون ٹو فائیو موٹر سائیکل پر اس کا راستہ روک کر گن پوائنٹ پر بائیک چھین لیتے ہیں، زندگی کی مہنگی ترین چیز وہ جان کی امان پاتے ہوئے ڈکیتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ بدقسمتی کہوں یا کچھ اور بندہ ناچیز کی اس نصیب کے مارے نوجوان سے جان پہچان تھی۔ ڈکیتی کے فوری بعد اس نے ون فائیو کو اطلاع کے ساتھ ہی ساتھ مجھے بھی فون کر دیا، پولیس موقع پر پہنچ گئی، جائے وقوعہ کا معائنہ ہوا، سیف سٹی کے کیمروں کی فٹیج بھی ڈکیتی کا سائرن بجا رہی تھی۔

محمد علی اس تھانے پہنچ چکا تھا جس کا نام فرشتہ قتل کیس میں دنیا بھر کے میڈیا میں گونجا تھا، اس وقت کیونکہ رات کافی گزر چکی تھی لہذا اسے کل آنے کا حکم دیا گیا۔ وہ دبے دل اور نا چاہتے ہوئے بھی سرکاری بابوؤں کی حکم بجا آوری لاتے ہوئے گھر روانہ ہو جاتا ہے جہاں اس کی کل کائنات اپنی بیماری کو بھلا کر اس کا انتطار کر رہی ہوتی ہے، واقعہ بتانے پر وہ پریشان ہونے کی بجائے بیٹے کا ماتھا چومتی ہے کہ ”شکر ہے تم محفوظ رہے ورنہ میں کیا کرتی۔“

خیر محمد علی جس سے پہلے ہی گھر کا خرچ بمشکل پورا ہوتا تھا اسے بائیک چھن جانے کا ان مٹ روگ لگ چکا تھا کیونکہ اب گھر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ اس کی اقساط بھی ادا کرنی تھیں۔ سورج کے طلوع ہوتے ہی محمد علی کے دل کی نا امیدی چھٹتی ہے اور وہ شہرہ آفاق تھانے کا رخ کرتا ئے۔ وہاں پہنچ کے گیٹ پر روکا جاتا ہے منت ترلے کرنے کے بعد اسے اندر جانے کی اجازت ملتی ہے۔ تھانے میں پہنچنے پر اسے اپنی بائیک ملنے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں میں نے اپنی ہی بائیک تو ڈکیتی نہیں کر لی۔

صبح سے شام تک لوگ آ رہے جا رہے اور سب کی طرح ”اسے بھی انتطار کرو صاحب مصروف ہیں“ کا ٹوکن تھما دیا جاتا ہے، شام کو اسے کل دوبارہ آنے کا حکم دیا جاتا ہے اور مختصر یہ کہ سلسلہ ایک ہفتہ تک جاری رہتا ہے۔

خواتین و حضرات یہ کوئی پنجاب یا بلوچستان کے دور دراز علاقے کی بات نہیں ہو رہی یہ قانون سازوں کے شہر کا تھانہ تھا، ظاہر ہے اس لئے ان کے نخرے بھی شاید ہائی کلاس ہوں گے۔ آٹھ روز گزرنے کے بعد محمد علی کی کال آتی ہے کہ تھانے کے ایک بڑے بابو ایف آئی آر دینے پر تو راضی ہو گئے ہیں لیکن! اس ”لیکن“ نے میرا تجسس بڑھایا تو وہ سسکیاں لیتے ہوئے وہ بتانے لگا اور میرے دماغ میں حکمرانوں کی ریاست مدینہ کا نقشہ گھوم رہا تھا،

خواتین و حضرات! مثالی پولیس کے اس مثالی کارنامے پر آپ کی توجہ درکار ہے۔ اس نے بتایا کہ ”پولیس کہہ رہی بائیک ہم تمیں ڈھونڈ دیں گے لیکن درخواست میں سے گن پوائنٹ پر چھیننا نکالنا ہو گا، تم گمشدگی کی درخواست دے دو۔ کیونکہ اگر ہم نے گن پوائنٹ پر ڈکیتی کی ایف آئی آر دی تو یہ ہماری بد نامی ہو گی اور افسران سرزنش کرتے ہیں لہذا اسے گمشدگی ہی رکھو یہ تمارے لئے بہتر ہے۔“

قارئین کرام یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا جب اعلی افسران سے دباؤ پڑنے پر ڈکیتی کی ایف آئی آر ہوتی ہے تو اس نوجوان کو ایس ایچ او صاحب دھمکی لگاتے ہیں کہ ”تم نے اپنے پتے کھیل لئے، اور جن سے فون کروانا ہے کروا لو اب ہم تمیں بتائیں گے کہ علاقہ پولیس کی بات نہ ماننے کا انجام کیا ہوتا ہے کیا تم نے صلاح الدین کا حال نہیں دیکھا اس سے بھی بد تر حال کریں گے تمارا اور کسی کو خبر بھی نہیں ہو گی۔“

آخر وردی میں ملبوس یہ بابو تمام تر واقعات کے باوجود کیوں نہیں سدھر رہے؟ ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے یہ واقعات ناقابل معافی ہیں۔ غریب کی آہ سے ڈرنے کی بجائے اس پر قہقہے لگانے والا یہ ہجوم قہر خداوندی کو دعوت دے رہا ہے۔

اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ (آمین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).