سانحہِ 9 / 11! شفاف تحقیقات کی ضرورت


11 ستمبر کو سانحہ ستمبر کی 18 ویں برسی ہے۔ امریکی اس دن کو ’سانحہ نائن الیون‘ کہتے ہیں۔ امریکہ میں تاریخ لکھتے وقت مہینہ پہلے درج کیا جاتا ہے اس لیے نواں ( 9 ) مہینہ اور دن 11 ہوا۔ امریکی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ نے 1996 میں ہوائی جہازوں کے ذریعے امریکہ کے تجارتی و عسکری اور سیاسی مراکز پر ایک ساتھ حملے کا منصوبہ بنایاتھا۔ اس پلان کے خالق مبینہ طور پر بلوچ نژاد خالد شیخ محمد تھے جن کی تجویز تھی کہ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر، پینٹاگون (امریکی جی ایچ کیو) اور امریکی کانگریس و وہائٹ ہاؤس کو ایندھن بھرے طیاروں کی مدد سے بھسم کردیا جائے۔

3 سال کے غوروخوض کے بعد 1999 میں اسامہ بن لادن نے منصوبے کی منظوری دی جس کے بعد منتخب دہشت گرد دو دو تین تین کی ٹولیوں میں امریکہ آئے اور شہری ہوابازی کے مختلف مدارس سے جہازاڑانے کی تربیت حاصل کی۔ ان میں سے کچھ لوگ پہلے سے جہاز اڑانا جانتے تھے۔ دہشت گردوں کا یہ گروہ 19 افراد پر مشتمل تھا جن میں سے 15 سعودی عرب کے شہری تھے، 2 افراد کا تعلق متحدہ عرب امارات سے تھا، ایک نوجوان لبنان کا جبکہ مبینہ سرغنہ محمد عطا مصر کا شہری تھا۔

تربیت مکمل ہونے کے بعد 11 ستمبر 2001 کوصبح آٹھ بجے کے قریب بوسٹن کے لوگن ائرپورٹ سے امریکن اور یونائیٹڈ ائر لائنز کی لاس انیجنلس جانیوالی پروازیں اغوا کرلی گئیں۔ یہ دونوں طیارے چار منٹ کے فرق سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی اور جنوبی ٹاورز میں ’گھونپ‘ دیے گئے۔ جی ہاں دونوں جہاز ٹکراکر گرے نہیں بلکہ ان فلک بوس عمارتؤں کے اندر گھس گئے۔

تیسرا جہاز امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے ڈلس ائر پورٹ سے اغوا کیا گیا۔ لاس اینجلس کی جانب محو سفر امریکن ائر لائنز کے اس بوئنگ 757 کو ورجینیا میں پینٹاگون کی عمارت پر گرادیا گیا۔ اسی کے ساتھ نیو جرسی کے نوارک ائر پورٹ سے لاس اینجلس کے لئے روانہ ہونے والی یونائیٹیڈ ائر لاین کی پرواز بھی اغوا کرلی گئی۔ اس بد نصیب طیارے نے سان فرانسسکو کے لئے اڑان بھری تھی۔ جہاز پر سوار ہونے والے چار دہشت گرد اس بوئنگ 757 کو مبینہ طور پر واشنگٹن میں وہائٹ ہاؤس سے ٹکرانا چاہتے تھے لیکن مسافروں کی مزاحمت کی بنا پر یہ جہاز پنسلوانیہ کے ایک شہر پر گر تباہ ہوگیا۔

اس کارروائی میں مجموعی طور پر 2996 افراد ہلاک ہوئے جن میں جہازوں پر سوار مسافر، اغواکار، عملے کے افراد، ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون میں موجود لوگ، نیویارک پولیس، فائر ڈپارٹمنٹ اور سیکیورٹی کے اہلکار شامل ہیں۔ ان واقعات میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 6000 سے زائد ہے۔ براہ راست مالی نقصان کا تخمینہ 3 ہزار ارب ڈالر ہے۔ اوپر درج تمام تفصیلات امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی اور امریکی سی آئی نے میڈیا کو فراہم کی ہیں۔

واقعہ کی مکمل تحقیقات کے لئے کانگریس نے نائن الیون کمیشن قائم کیا جس نے جولائی 2004 میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں ایف بی آئی اور سی آئی اے کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کی تصدیق کی گئی۔ یہ بلاشبہ ایک گھناؤنی کارروائی تھی جس کی غیر مشروط مذمت ضروری ہے۔ معصوم شہریوں کو زندہ جلاڈالنا اور اربوں ڈالر کی تنصیبات کو بھسم کردیناسراسر دہشت گردی ہے جس کی مہذب دنیا میں کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم اس واردات سے متعلق تفصیلات کے بارے میں غیر جانبدار ذرایع اب تک تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

بدقسمتی سے تمام کے تمام دہشت گرد ان واقعات میں جاں بحق ہوگئے اور ان میں سے کسی کی لاش بھی سلامت نہ رہی جس کی بنا پر اس گھناونے واقعہ کی پشت پر کارفرما عوامل کا حتمی تعین ممکن نہیں۔ سب سے ٹھوس دستاویزی ثبوت مبینہ سرغنہ محمد عطا کے سوٹ کیس سے برامد ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عطا کا ایک سوٹ کیس بوسٹن ائر پورٹ سے جہاز پر لادانہ جاسکا اور یہ ایف بی آئی کے ہاتھ لگ گیا۔ اس سوٹ کیس میں اغواکنندگان کے نام، قومیت اوراہم تفصیلات درج ہیں۔

خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ اغوا کنندگان نے امریکہ میں جہاز اڑانے کی تربیت لی تھی۔ ہوابازی کے بہت سے ماہرین کے خیال میں اسکول کی تربیت کے بعد اس مہارت سے جہاز اڑانا ممکن نہیں۔ ایک ’نوسکھیا پائلٹ‘ نیم حکیم خطرہ جان کے مصداق جہاز کو گرا تو سکتا ہے لیکن جہاز کوکامیابی سے ٹاور میں گھسادینے کے لئے خاصی مشق اور مہارت درکار ہے۔ اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے چھروں سے پائلٹوں کو ذبح کردیا اور مسافروں کو قابو کرنے کے لئے آنسو گیس استعمال کی۔

سوال یہ ہے کہ صرف ایک ائرپورٹ یعنی بوسٹن سے دس دہشت گرد چھروں اور آنسو گیس کے شیل لے کر سوار ہوئے اور سیکیورٹی حکام کو خبر تک نہ ہوئی؟ نیویارک، نیو جرسی، بوسٹن، امریکی دارالحکومت اور اس سے ملحقہ فضائی حدود میں صبح کے وقت ہوائی جہازوں کا اژدھام رہتا ہے اور اگر کوئی مسافر طیارہ اپنے مقررہ راستے سے ذرا بھی ادھر ادھر ہو تو کنٹرول ٹاورز تنبیہ جاری کرتے ہیں۔ اس روز یہ طیارے دیر تک اور دور تک اپنی مرضی سے پرواز کرتے رہے اور کنٹرول ٹاور کی آنکھوں سے ان چار جہازوں کی مست خرامی پوشیدہ رہی۔

چچاسام کی کامیابی کا راز ان کا شفاف عدالتی نظام ہے۔ امریکی ہر معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب جبکہ طویل عرصہ گزرجانے کے بعد اشتعال ختم ہوچکا ہے اس پورے واقعے کی نئے سرے سے تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس المناک واقعے نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ دنیا بھر میں انسداد دہشت گردی کے نام پر کی جانیوالی قانون سازی نے انفرادی آزادی اور شہری حقوق سلب کرلئے۔ سیکیورٹی ایجنسیوں کو ملنے والے غیر معمولی اختیارات نے عام شہریوں کے لئے مشکلات پیدا کیں اور سب سے بڑھ کر کمزور ممالک کی علاقائی خودمختاری عملاً ختم ہوکر رہ گئی جس کی زندہ مثال پاکستان ہے جہاں امریکی ڈرون جب اور جسے چاہیں بلا روک ٹوک جسے چاہیں نشانہ بناسکتے ہیں۔

ایک امریکہ ہی کیا ہر طاقتور ملک کمزور قوم کو پامال کررہا ہے۔ برما میں روہنگیا اقلیت کو دہشت گرد قرار پوری آبادی کو ان کے آبائی گھروں سے نکال دیاگیا اور مزاحمت کرنے والے ذبح کردیے گئے۔ آسام کے مسلمانوں کو اب انھیں حالات کا سامنا ہے۔ لاکھوں کشمیری کئی ہفتوں سے کرفیو کاعذاب جھیل رہے ہیں۔ چین کی ایغور آبادی نسلی تطہیر کا شکار ہے۔ خلیجی ممالک یمن پر بمباری میں آزاد ہیں۔ روس کریمیا پرچڑھ دوڑا۔ روس، امریکہ، ترکی اور ایران شام میں مورچہ لگائے بیٹھے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین اسے ”نیو ورلڈ آرڈر“ کا نام دے رہے ہیں۔ اردو میں اس صورتحال کو ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کہا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).