دعا کریں امریکا اور طالبان کی لائن سیدھی ہو جائے


امریکا اور طالبان مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ بھی جاتے تو بین الافغان ڈائیلاگ سے قبل فوری طور پر افغانستان میں امن کی امید نہیں تھی۔ بین الافغان مذاکرات اب تک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان خود کو افغانستان کا حقیقی اسٹیک ہولڈر اور اشرف غنی حکومت کو کٹھ پتلی تصور کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مطالبہ افغان سر زمین سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ قابض افواج وہاں سے نکل کر افغانوں کو اپنا سیاسی مستقبل خود طے کرنے دیں۔

ماضی میں جب کسی بندوبست کے بغیر سوویت فوج افغان سر زمین سے نکلی اور عالمی طاقتوں نے بھی افغانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تو وہاں بدترین خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ جس کے اثرات سے افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی دہکتا رہا۔ اس تجربے کو مد نظر رکھنے کے باوجود افغان مسئلے کے حل کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان پیشگی مفاہمت نا گزیر ہے۔ پاکستان کا امن بھی براہ راست افغان امن سے وابستہ ہے اور جب تک افغانستان میں استحکام نہیں ہو گا ہمارے ہاں بھی پائیدار امن ممکن نہیں۔ لہذا امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے طالبان کے ساتھ طے شدہ خفیہ ملاقات منسوخ اورامن مذاکرات معطل کرنے کا اعلان افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لئے بھی سنگین اثرات کا سبب بن سکتا ہے۔

امن مذاکرات معطل کرنے کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتہ کے دوران طالبان کے حملہ کو بہانے کے طور پر پیش کیا۔ اس حملہ میں ایک امریکی اور ایک اطالوی فوجی سمیت بارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ طالبان اور امریکہ کی بات چیت کوئی دو چار روز پہلے شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ قطر میں تقریبا پچھلے ایک سال سے یہ مذاکرات چل رہے تھے اور اس دورانیے میں طالبان اس سے بھی کہیں بڑے انگنت حملے کر چکے ہیں۔

اگرچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عین اس موقع پر جب مذاکراتی عمل کے اختتام میں دو چار ہاتھ لب بام رہ چکے تھے طالبان کو بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تمام عرصے میں کسی بھی مرحلہ پر نہ تو طالبان نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی تھی اور نہ ہی امریکہ نے ان سے کارروائیاں روکنے پر اصرار کیا۔ اب لیکن صدر ٹرمپ نے اچانک یہ کہہ کر مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کر دیا کہ ”یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ جھوٹے مفاد کے لیے طالبان نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ وہ مزید کتنی دہائیوں تک لڑنا چاہتے ہیں؟“

ایسے موقع پر جب امن معاہدہ کا ابتدائی مسودہ تیار ہو چکا تھا اور ٹرمپ کی طالبان لیڈر اور افغان صدر سے کیمپ ڈیوڈ میں علیحدہ علیحدہ ملاقات ہونے والی تھی، دنیا کی واحد سپر پاور ریاست کی پالیسی میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ چار روز قبل کیے گئے ایک حملے کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس قدم کے بہت سے دیگر عوامل ہیں، جو کسی حد تک بین الاقوامی میڈیا میں رپورٹ بھی ہو رہے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ امریکا میں خارجہ اور دفاع سے متعلق پینٹاگون اور سول حکومت میں مشاوت اور کوآرڈی نیشن ضرور ہے مگر فیصلہ کن اختیار پینٹاگون ہی رکھتا ہے۔

اس کے ثبوت کے طور پر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امریکی صدربراک اوباما اپنی انتخابی مہم کے دوران افغان جنگ کے خلاف بات اور اقتدار میں آنے کے بعد وہاں سے افواج واپس بلانے کا ذکر کرتے تھے۔ انہوں نے مگر منصب سنبھالنے کے بعد نہ صرف اپنے پیشرو کی چھوڑی ہوئی پالیسی کو آگے بڑھایا بلکہ افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ بھی کر دیا۔ اسی طرح ٹرمپ بھی منصب سنبھالنے سے قبل امریکا کی افغان پالیسی پر تنقید کرتے رہے ہیں اور انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ”وہ اقتدار میں آنے کے بعد بیرون ملک امریکی فوجی آپریشنز کو مرحلہ وار ختم کر دیں گے۔“

اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ نے بھی پھر بادل ناخواستہ ہی سہی مگر اسی سابقہ پالیسی کو جاری رکھا اور انہیں بھی احساس ہوگیا کہ اقتدار ملنے کے بعد بھی بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر سول حکومت کا اختیار نہیں ہوتا۔ جس کا اظہار انہوں نے ایک بار اپنی تقریر میں یہ کہہ کر کیا تھا کہ ”وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر بہت سی چیزوں کو آپ اپنی نظر سے نہیں دیکھ سکتے۔ وہاں بیٹھ کر آپ کو وہی نظر آتا ہے جو آپ کو عینک (اسٹیبلشمنٹ) دکھانا چاہتی ہے۔“ جب ٹرمپ اپنے تئیں طالبان کے ساتھ کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے تھے، اس وقت بھی یہ خبریں چل رہی تھیں کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ اور چین سے مخاصمت کے پیش نظر افغانستان میں انٹیلی جنس موجودگی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔

ٹرمپ کی طرف سے کسی ٹھوس وجہ کے بغیر مذاکرات معطل کرنے اور طالبان لیڈروں کے ساتھ خفیہ ملاقات سے انکار کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں بچا کہ دراصل یہ قدم امریکی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں لیا گیا ہے اور اب امریکہ مستقبل قریب میں افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے پریشانی کی بات یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے قبل امریکا اور پاکستان کے مابین اعتماد کا سنگین فقدان تھا۔

اس بے اعتمادی کی خلیج کو پاٹنے کے لیے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی کوشش کی اور موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بھی ملٹری قیادت کے ساتھ اپنے دورہ واشنگٹن میں بہت سی ضروری اور غیر ضروری یقین دہانیاں کرائیں تھی۔ ہم ایسے لوگ اسی بات کو سوچتے ہوئے دہائیاں دے رہے تھے کہ سپر طاقت اور اسے ناکوں چنے چبوانے والی قوت میں ثالثی، یعنی چودھراہٹ کا شوق ضرور پورا کیا جائے مگر اپنی ”اوقات“ بھی دھیان میں رکھنی چاہیے۔ خدشہ ہے کہ اب جب تصادم کا نیا دور شروع ہو گا تو تلملاہٹ میں امریکا اپنا سارا غصہ پاکستان پر نکالے گا۔

ٹرمپ کی لچھے دار گفتگو پر جھومنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کل کلاں کوئی اونچ نیچ ہوئی تو ملکی معاشی صورتحال پہلے نازک ہے، بیرونی قرضے آسمان کو چھو رہے ہیں، گردشی قرضوں میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا، تیل کی قیمتوں میں کمی اور سعودی امداد کی بدولت جو زرمبادلہ میں معمولی مصنوعی اضافہ ہو رہا تھا، وہ بھی تھم چکا۔ قرض کے سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کا پیکج مکمل نہیں ہوا بلکہ پائپ لائن میں ہے۔

ثالثی کی کوشش میں ناکامی کے بعد (جو کہ یقینی تھی) امریکا نے عدم تعاون کا الزام لگا کر اگر عالمی مالیاتی ادارے پر دباؤ کر مزید قرض کی فراہمی معطل کرادی یا FATF کی بلیک لسٹ میں نام ڈال دیا تو دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہی نہ ہو گا بلکہ ملکی سلامتی داؤ پر لگ جائے گی۔ ہم مگر معتبری کے زعم اور چودھراہٹ کے شوق میں سی پیک جیسا کام بھی چھوڑ بیٹھے تھے۔ نئے پاکستان میں عمل سے زیادہ شخصی معجزات اور دعاؤں پر یقین ہے اس لیے پیشگی کسی تدبیر کی توقع رکھنا فضول ہے۔ ویسے طالبان کو لچک پر مائل کرنے کی کوشش کر بھی لی جائے تو ہمارا ان پر وہ اثر و رسوخ نہیں جو گپ وزیراعظم صاحب امریکا میں سنا آئے ہیں۔ لہذا دعا کریں کہ امریکا اور طالبان کی لائن ازخود سیدھی ہو جائے ورنہ آنے والے دن ہمارے لیے بہت تلخ ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).