جو مہنگائی سے بچ نکلنے، ڈینگی سے ماریں گے؟


یہ ذکر ہے 11۔ 2010 کا جب ڈینگی مچھر نے پنجاب بھر میں عموماً اور لاہور میں خصوصاً تباہی مچا رکھی تھی۔ تب 25,000 سے زائد افراد اس بیماری کا شکار ہوئے جن میں سے 350 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب نے اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا، یوں محسوس ہونے لگا کہ ملک میں اک واحد مسئلہ ڈینگی ہی بچا ہے۔ انسداد ڈینگی فورس بنا دی گئی، اس کے تدارک کے لیے خصوصی ٹیمیں گھر گھر جا کر لوگوں کو ڈینگی سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر سمجھانے لگیں۔

گلیوں، محلوں بازاروں میں ڈینگی بچاؤ سپرے معمول بن گیا۔ شاہراؤں پر ہر طرف ڈینگی بخار کی علامات اور بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر سے مزین فلیکس نظر آنا معمول بن گیا۔ چونکہ یہ بات واضح تھی کہ یہ مچھر صرف صاف پانی سے پھیلتا ہے تو البراک والے بارش ہوتے ہی وائپرز لے کر ہر مقام سے پانی نکالتے نظر آتے۔ یہاں تک کہ پی ایچ ایے کے مالیوں کو پودوں کو پانی دینے تک سے روک لیا گیا۔

ڈینگی ٹیمز کا یہ سلسلہ صرف گھروں تک محدود نہ رہا سکول کالجوں تک پہنچ کر طالبعلموں کو بروشر تھماتے رہے۔ بلکہ کالجز اور سکول انتظامیہ کو سختی سے پابند کیا گیا کہ ہفتے میں ایک بار ڈینگی سیمینار کا انعقاد کیا جائے۔ سا بق وزیر اعلی نے اس معاملے کو اس قدر دلجمعی سے لیا کہ انڈونیشیا اور سری لنکا جیسے ممالک جو دہائیوں سے ڈینگی مسئلے کا شکار تھے وہاں سے ڈاکٹرز کی خصوصی ٹیمز کو لاہور مدعو کیا اور ان سے ملنے والی ہدایات کی روشنی میں اقدامات اٹھائے۔ نتیجہ یہ نکلا اپوزیشن کے لوگ جو بڑھتے ہوئے ڈینگی سے ہونے والی اموات پر شہباز شریف کو ہدف تنقید سمجھنے لگے تھے زچ ہو کر شہباز شریف کو ”ڈینگی برادران“ جیسے القابات سے نوازنے لگے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پانچ کروڑ سے زائد افراد ڈینگی بخار کا شکار ہوتے ہیں جس کے سبب تقریباً 20 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ دنیا کے تقریباً ایک سو کے قریب ممالک میں ڈینگی پھیلانے والے اڑتیس اقسام کے مچھر ہیں جن میں سے صرف ایک قسم کا مچھر پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق ڈینگی بخار سے بچاؤ کی کوئی دوا ہے نہ ٹیکہ اس مہلک بیماری کو محض احتیاطی تدابیر سے روکا جا سکتا ہے۔ تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں، درجہِ حرارت میں بڑھتا ہوا اضافہ، بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے پاکستان سمیت ایشائی ممالک پر ڈینگی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

رواں برس یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے ملک بھر میں ڈینگی نے ایک بار پھر اپنی پوری قوت سے حملہ کر دیا ہے۔ محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں ڈینگی سے مجموعی طور پر 1156 کیسیز سامنے آئے ہیں۔ رواں برس سندھ میں ڈینگی سب سے زیادہ سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے جہاں اب تک 1500 سے زائد کیسیز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب میں بھی ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں رواں سال 900 افراد ڈینگی سے متاثر ہوئے ہیں۔ ڈینگی کے ہونے والے ان نئے حملوں میں متعدد ہلاکتیں بھی رپورٹ ہوئی ہیں جو باعث تشویش امر ہے۔

ڈینگی کے متعلق اک عجیب حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ صرف طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت ہی لوگوں کو اپنا نشانہ بنایا کرتا ہے۔ عموماً اس وقت پارکس میں جاگنگ اور ورزش کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ حال ہی میں ختم ہوئے مون سون سیزن کے دوران کئی کئی دن پارکس میں بارش کا پانی کھڑا رہنے اور ڈینگی سے بے خبر خواب خرگوش کے مزے لیتی حکومت کی عدم دلچسپی کے سبب مناسب وقت پر مچھر مار سپرے نہ ہونے کے سبب لاہور کے پارکس میں مچھروں کی بہتات ہے، خصوصاً یہ پارکس ڈینگی کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔

تصدیق کے خواہشمند لاہور میں باغ جناح چلے جائیں، ریس کورس یا پھر ماڈل ٹاؤن پارکس، غالب گمان ہے کہ سوسائٹیوں کے چھوٹے چھوٹے پارکس بھی اس آفت سے محفوظ نہ ہوں گے۔ ہر جگہ وہ ڈینگی مچھر جو شہباز شریف دور حکومت میں محض مناسب اقدامات کے سبب ناپید ہو گیا تھا، گمان ہونے لگا تھا کہ سفید دھبوں کا حامل یہ مچھر ہے بھی کہ نہیں، پچھلے دو ماہ سے پارکس میں لوگوں کے گرد یوں منڈلا رہا ہے جیسے یہ ڈینگی نہ ہو، مکھیاں ہوں۔

ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کے تازہ بیان کے مطابق انہیں پنجاب میں بڑھتے ہوئے ڈینگی کیسیز پر تشویش ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس تشویش سے بچنے کے لیے ان کا محکمہ اور حکومت کیا اقدام اٹھا رہی ہے؟ پچھلی حکومتوں سے ہر لحاظ سے بہتر حکومت کے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار شہباز شریف کے سابقہ اقدامات کے مقابلے میں کیا گل کھلا رہے ہیں؟

ہم مہنگائی برداشت کر لیتے ہیں، مہنگا پیٹرول ڈلوا لیں گے، کچرے کے ڈھیروں کے پاس سے منہ لپیٹ کر گزر جائیں گے مگر خدارا آپ اک ڈینگی کو تو لگام ڈالیں۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کپتان اور ان کی قابل ٹیم نے ڈینگی ختم کرنے کا آسان طریقہ صرف صبر نکالا ہے۔ شاید ان کے نزدیک اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ عوام دو تین ماہ تک گھبرائے بغیر صبر کا دامن تھامے رکھیں کیونکہ سردیوں میں یہ مسئلہ خود بخود ختم ہو جائے گا اور ان کے لیے، جو زندہ بچ گئے، آسان موت کو کوئی اور حل سوچا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).