میڈیا انڈسٹری کے مالکان کے نام کھلا خط


آج کئی روز کے بعد خود کو ہلکا پھلکا محسوس کررہا ہوں کہ پریس کلب کے صدر ارشد انصاری بیرون ملک سے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ آج میرے کندھوں سے قائم مقامی کا بوجھ بھی اتر گیا ہے تو یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے خیالات کا کسی رکھ رکھاؤ کے بغیر آزادی سے اظہار کرسکوں۔

میڈیا ہاؤسز سے صحافی کارکنوں کی چھانٹیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ میڈیا مالکان سیکڑوں صحافیوں اور دیگر کارکنوں کے معاشی قتل کی وجہ مالی بحران بتا رہے ہیں، یہ بات درست ہے کہ ملک میں اقتصادی شرح نمو 5.8 فیصد سے گر کر 2.4 فیصد پر آگئی ہے، اشتہارات کے ریٹس کم ہوگئے ہیں اور مارکیٹ سکڑ گئی ہے مگر دوسری طرف مالکان کا پندرہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ والے کارکنوں کو نکال کر خسارے کم کرنے کا عمل زمینی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتا۔

میڈیا انڈسٹری کے ریونیو اور اخراجات میں بگڑے توازن کی حقیقت یہ ہے کہ تنخواہوں اور مراعات کی مد میں اخراجات کا 80 فیصد ان 15 فیصد اینکروں پر اٹھ رہا ہے جو دو، چار گھنٹے کے لئے دفتر آتے ہیں اور جھوٹی، سچی اور ملی جلی ”پرفارمنس“ دے کر نکل جاتے ہیں، اور وہ بھی ہفتے میں تین چار دن۔ اس ”پرفارمنس“ کا معاوضہ ایک کروڑ روپے ماہانہ تک بھی ہے۔

میڈیا مالکان سمجھتے ہیں کہ ان ”ایکٹروں“ کی وجہ سے بچا کھچا ریونیو آرہا ہے، اگر یہ نہ رہے تو دیوالیہ نکل جائے گا۔ زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو بات واضح ہے کہ ان لاڈلوں کو پالنے کے چکر میں اگر سارا چھوٹا سٹاف اور خود اپنے آپ کو بھی فائر کرلیں تو کمپنی خسارے سے نہیں نکلنے والی۔ اس مسئلے کے میری نظر میں دو حل ہیں۔

1۔ ان اینکروں کی تنخواہ فوری طور پر پاکستان کی مارکیٹ کے مطابق بنا دی جائے، اس کے لئے حکومت پاکستان کے نجی شعبے کے ٹیکنو کریٹس کے لئے مختص مینجمنٹ پے سکیل ون کی تنخواہ 5 لاکھ 32 ہزار 950 روپے کا بنچ مارک مقرر کرکے اس کے زیادہ سے زیادہ 300 فیصد پلس کے برابر سپیشل الاؤنس رکھ کر کارکردگی کی بنیاد پر فارمولا تیار کر لیا جائے۔ اس فارمولے کی بناء پر تنخواہیں مقرر کردی جائیں۔

2۔ دوسرا فارمولا یہ ہے کہ ہر اینکر کی تنخواہ اس کے پروگرام کو ملنے والے ریونیو کا زیادہ سے زیادہ 25 فیصد تک کے برابر مقرر کردی جائے کیونکہ اشتہارات کے لئے ایجنسی کمیشن 15 فیصد مقرر ہے تو اینکرز کو ان کی سپیشلائزیشن اور محنت کا 10 فیصد اضافی دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ایک اہم بات یہ بھی کہ ان فارمولوں پر عمل درآمد سے پہلے دو کام بڑے ضروری ہیں، اول یہ کہ ان کو نافذ العمل کرنے کی منظوری پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن متفقہ طور پر دے۔

دوم یہ کہ میڈیا مالکان اپنے اپنے اداروں میں موجود ٹیلنٹڈ صحافیوں کو آہستہ آہستہ سکرین پر متعارف کروانا شروع کردیں اور مہنگے اینکرز کی متبادل کھیپ بنا لیں۔ یہ نئے اینکرز سکرین پر کسی حد تک اسٹیبلش ہوچکے ہوں گے تو ان کی شناخت کا کرائسس یا اجنبی پن نہیں ہوگا۔ یہ فارمولا پہلے بھی چل رہا ہے ورنہ کراچی کے مہنگے ترین اینکر اپنی عدم موجودگی میں اپنا پروگرام ایک نوجوان رپورٹر سے نہ کرا رہے ہوتے۔ اس کا مطلب ہے کہ کام چل سکتا ہے اور مناپلی ٹوٹ سکتی ہے۔

میڈیا انڈسٹری کے مالکان ان تجاویز پر عمل کریں تو نہ صرف 2 لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والے صحافیوں اور ٹیکنیکل ماہرین کی ملازمتیں محفوظ ہوجائیں گی بلکہ ان کو بڑے پیمانے آپریشنز کٹ ڈاؤن کرنے کی ضرورت بھی شاید نہ رہے۔ آپریشنل صلاحیت کم کرنا قدامت پسند اپروچ کہلاتی ہے جو آخر کار کمپنی ”بند“ کروا کے دم لیتی ہے، دوسری طرف بڑی آپریشنل صلاحیت مگر متوازن اخراجات کے ساتھ پروگریسو اپروچ نے دنیا میں کمپنیوں کو انڈسٹریل ایمپائرز میں بدل دیا ہے، اس کی پاکستان میں کامیاب مثال مسلم کمرشل بنک کا نجکاری کے بعد کا نشاط گروپ کا طریقہ کار ہے جس سے ایم سی بی بنک کے اثاثے کئی گنا بڑھ گئے۔

یہ سطور میں نے اپنی ذاتی حثیت میں لکھی ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ کوئی صحافتی تنظیم، کارکنوں کے روزگار کے تحفظ اور غیر حقیقی تنخواہوں کے بوجھ تلے دب کر دم توڑتی میڈیا انڈسٹری کو بچانے کے اس فارمولے کی مخالفت کرے گی۔ گیند اب مالکان کے کورٹ میں ہے، ہٹ ان کو مارنا ہے، ہم ان کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں۔

والسلام۔
ذوالفقار علی مہتو
سینئیر وائس پریزیڈنٹ
لاہور پریس کلب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).