کیا مفتی نور ولی کا نام ’عالمی دہشت گرد کی فہرست میں پاک امریکہ دوستی کی وجہ سے شامل ہوا؟


امریکہ کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے دس ستمبر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں 11 شدت پسندوں کو ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دیا گیا جن میں پہلے نمبر پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مفتی نور ولی محسود شامل تھے۔

اگرچہ مفتی نور ولی کو ٹی ٹی پی کے امیر بنے ہوئے 15 ماہ ہو گئے لیکن امریکی صدر نے انھیں دس ستمبر کو اس فہرست میں شامل کیا۔

40 سالہ مفتی نور ولی محسود کو ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد نیا امیر مقرر کیا گیا تھا۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے سرہ روغہ سے تعلق رکھنے والے مفتی نور ولی محسود کراچی اور پنجاب کے مختلف مدارس میں زیر تعلیم رہے اور افغانستان میں طالبان کے ہمراہ پہلے شمالی اتحاد اور پھر سنہ 2001 میں امریکی افواج کے خلاف جنگ میں بھی شریک ہو چکے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہوں کو نہ صرف ماضی میں بھی امریکہ نے ’دہشت گرد‘ قرار دیا ہے بلکہ ان کے کئی رہنما پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں اور افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

مسعود اظہر دہشتگرد قرار، کس کو کتنا فائدہ، کتنا نقصان؟

امریکہ مسعود اظہر کے معاملے پر دانشمندی سے کام لے: چین

جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت کالعدم، جیش محمد کے اہم ارکان زیرِ حراست

جماعت الدعوة اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی

مفتی نور ولی محسود تحریکِ پاکستان طالبان کے نئے امیر مقرر

تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مفتی نور ولی محسود کو ایک ایسے وقت میں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا ہے جب پاکستانی وزیراعظم عمران خان دو ماہ قبل پہلے امریکہ کا دورہ کرچکے ہیں اور پاکستان کے مطابق پاک، امریکہ تعلقات کا نیا باب شروع ہوا ہے۔

تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق پاکستان کا امریکہ سے ایک عرصہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں کو ’عالمی دہشت گردوں‘ کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

طالبان

ان کے مطابق یہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کی علامات ہیں۔ ’امریکہ پاکستان کے مطالبات اور خواہشات کو آہستہ آہستہ مان رہا ہے اور اس کی توقع ہو گی کہ پاکستان بھی امریکی مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔

اس سے پہلے جولائی میں ہی امریکہ نے بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو بھی عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔

تاہم چیک ریپبلک کے دارالحکومت پراگ میں مقیم ’دی پشتون کویسچن‘ کے مصنف اور صحافی ابو بکر صدیق سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مطالبات کے باوجود بھی امریکہ کے پاس واچ لسٹ ہوتی ہے اور وہ ایسے افراد اور تنظیموں کو قریب سے دیکھتے ہیں جن پر دہشت گرد کارروائیوں کا شک ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ’اگر بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کی بات کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان نے امریکہ سے درخواست کی ہو لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ امریکہ نے ایران میں بھی شدت پسند تنظیموں جند اللہ اور جیش العدل کو دہشت گرد قرار دیا ہے حالانکہ وہ ایرانی حکومت کے خلاف لڑتے ہیں جس سے امریکہ کو شدید اختلافات ہیں۔‘

ابو بکر صدیق کے مطابق ایسے اقدامات سے واشنگٹن اسلام آباد سے شدت پسندی کی روک تھام میں حمایت چاہتا ہے کیونکہ افغانستان اور انڈیا کا ایک عرصے سے پاکستان پر الزام ہے کہ بعض گروہ پاکستان کی سرزمین ان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق اگرچہ ٹی ٹی پی سربراہ کا نام اس فہرست میں شامل ہونے سے ان کی کارروائیوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن اس کے باوجود بھی ان پر سفری پابندیاں مزید سخت ہو جاتی ہیں اور وہ کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ’افغانستان میں ہم نے دیکھا کہ مذاکرات میں طالبان کا سب سے پہلا مطالبہ یہ تھا کہ ہمارے رہنماؤں کو ان فہرستوں سے نکالا جائے۔‘

ابو بکر کے مطابق ان اقدامات سے امریکہ اور مغربی دنیا نائن الیون کے بعد جو پیغام دینا چاہتی ہیں وہ یہ ہے کہ وہ تنظیمیں جو شدت پسند نظریے کو بندوق کے زور پر منوانا چاہتی ہیں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp