میمی بیئرڈ: شمع کی روشنی میں پڑھ کر منزل پا لینے والی بے گھر لڑکی کی کہانی


میمی بیئرڈ

میمی بیئرڈ پر ایک وقت ایسا تھا جب وہ پناہ گاہ میں مقیم تھیں اور انھیں کھانے اور بجلی میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا

میمی بیئرڈ کو 16 برس کی عمر میں بے گھر ہونا پڑا۔ جس پناہ گاہ میں وہ گئیں وہاں وہ سب سے کم عمر اور واحد لڑکی تھیں۔ خیراتی کھانے اور شمع کی روشنی میں پڑھنے والی اس لڑکی کی کہانی اس کی اپنی زبانی۔

دو سال قبل میں نے اپنے آپ کو کہیں کھویا ہوا محسوس کیا۔ میں اپنی زندگی کے ہر پہلو سے جدوجہد کر رہی تھی۔

میرا بچپن مشکل حالات میں گزرا تھا۔ کبھی ایک رفاہی ادارے میں تو کبھی دوسرے میں، کبھی ایک مکان تو کبھی دوسرا، عمر کے ابتدائی 13 برس جیسے کباڑ بن گئے ہوں۔

میں چار ماہ کی تھی تو میرے والد گھر چھوڑ گئے، میری والدہ ذہنی اور جسمانی امراض کا شکار تھیں جن کا خیال مجھے رکھنا پڑتا تھا۔ 16 برس کی ہوئی تو مزید اپنی والدہ کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی مگر کہیں جانے کی جگہ بھی نہیں تھی، اور پھر میں بے گھر ہو گئی۔

کونسل والوں نے مجھے وائی ایم سی اے بھیج دیا جہاں میں واحد لڑکی تھی اور سب سے کم عمر بھی۔ میرے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’کیک پر لگی ایک ایک چیز ہاتھ سے بناتی ہوں‘

’مواقع بہت ہیں، بس تھوڑی محنت چاہیے اور کچھ قسمت‘

’پتہ نہیں کس میڈل کے بعد پرائیڈ آف پرفارمنس ملے گا‘

سب لوگ سوچ رہے تھے کہ میں گھر میں جھگڑا کرتی ہوں گی اس لیے مجھے باہر پھینک دیا گیا ہے۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ لوگوں کے تعصبات سے لڑنا خاصا دلچسپ تھا۔

میں سکول نہیں جاتی تھی اس لیے کہ وہاں مجھے تنگ کیا جاتا تھا۔ صرف امتحان دینے جاتی تھی۔ میں جیسے تیسے اے لیول تک پہنچ گئی۔ اس دوران میں ایک رفاہی ادارے کے زیرانتظام چلنے والے گھر چلی گئی۔ وہاں کسی نے اے لیول نہیں کیا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ میری مشکلیں کم نہیں ہوئیں۔

مجھے کچھ بل بھی ادا کرنا پڑے۔ روز مرہ ضروریات کی چیزوں کا حصول مشکل تھا۔ ایسے میں بجلی کب تک آن رکھ سکتی تھی۔ کیا نہانے کے لیے گرم پانی کافی مقدار میں ہے؟ یا نہانا بھول کر کھانے کی فکر کروں؟ مجھے یاد نہیں ہے کہ موم بتی کی روشنی میں میں نے کتنے گھنٹے پڑھائی کی۔ اتنی ساری موم بتیاں کمرے میں رکھنے پر کئی بار ڈانٹ پڑی کیونکہ ان سے آگ لگنے کا خطرہ تھا۔

شام کو سب لوگ گپ شپ میں مصروف ہوتے اور میں ایک کونے میں بیٹھی اپنے نوٹس تیار کرتی۔ میرا نام ‘اداس’ پڑ گیا تھا کیونکہ میں الگ تھلک پڑھائی میں مشغول رہتی اور سب کے سب مزے اڑاتے۔

میں تقریباً ہمت ہار بیٹھی تھی۔ میں نے پہلے سال پڑھائی ترک کر دی۔ زندگی بے مقصد سے ہو کر رہ گئی تھی اور مجھے کچھ سوجھائی نہیں دے رہا تھا۔

19 برس کی ہوئی تو حالت اور خراب ہو گئی اور میں نے ایک دوا کی زیادہ خوراک کھا لی۔ ڈاکٹروں نے میری ماں کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں بلا لیا کیونکہ انھیں یقین نہیں تھا کہ میں بچ پاؤں گی۔

میں خوش قسمت ہوں کہ بچ گئی۔ دوا کی زیادہ خوراک میرے لیے اہم ثابت ہوئی اور میں نے اپنی زندگی کو بدلنے کا فیصلہ کر لیا۔

ٹیکنالوجی کی ایک کمپنی جب پناہ گاہ میں لوگوں کو مشورہ دینے آئی تو انھیں مجھ میں کچھ نظر آ گیا۔ کمپنی کے مالک نے مجھے اپنے زیر سایہ اور آج میں جو ہوں اسی وجہ سے ہوں۔

مجھے احساس ہو گیا کہ اپنی حالت سدھارنے کا واحد راستہ حصولِ تعلیم ہے۔ میں نے پھر سے پڑھائی شروع کر دی۔ میری طرح کم عمری میں بے آسرا ہونے والے اتنے نیچے گر جاتے ہیں کہ انھیں کچھ نظر ہی نہیں آتا اور وہ زندگی میں آنے والے مواقع گنواتے چلے جاتے ہیں۔

مجھے بچپن سے معلوم تھا کہ میں اس راستے پر نہیں چل سکوں گی جس پر میرے دوست چل رہے تھے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔

جب میرے ساتھی داخلے کے لیے یونیورسٹی کے انتخاب میں مصروف تھے میں سونے کے لیے صوفے ڈھونڈ رہی تھی کیونکہ میں پھر سے بے گھر ہو چکی تھی۔ جب میرے دوست پرائیویٹ ٹیوشن لیتے تو میں دو وقت کی روٹی کے لیے فوڈ بینک کا رخ کرتی۔ بنیادی خوراک تو مل جاتی ہے مگر مناسب نہیں۔ اس میں غذایت نہیں ہوتی۔

میمی بیئرڈ

میمی نے 2018 میں اے لیول (بارہویں جماعت) دو A اور ایک B سے پاس کیا

میں نے جیسے تیسے پہلا سال پاس کر لیا اور معاشیات میں کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے مذکورہ کمپنی میں شام کے وقت اور ہفتہ وار تعطیل پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس دوران میں نئی آنے والی ٹیکنالوجیز میں تعلیمی وظیفے کے لیے درخواستیں بھی دیتی رہی۔ اگرچہ مجھے کوئی تجربہ نہیں تھا مگر بزنس کے لیے میری لگن نے مجھے ہمت دی جس کی بنیاد پر میں نے کام میں تجربہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی۔

میں نے کئی جگہ درخواستیں دیں۔ اگرچہ امید کم تھی پھر بھی میں نے سوچ لیا تھا کہ اس کے سوا میرے پاس زندگی بہتر کرنے کا کوئی اور راستہ بھی نہیں۔ اور اگر میں مختلف جگہ اپلائی نہ کروں تو موقع کیسے ملے گا، اور پھر درخواست دینے میں میرا نقصان بھی کیا تھا۔

یہ ایک طویل عمل تھا: ٹیسٹ، مضامین اور ویڈیو انٹرویوز پر مشتمل۔ میرے پاس پہننے کو اچھے کپڑے بھی نہ ہوتے اور ضرورت پڑنے پر کیٹ مجھے اپنے کپڑے دے دیتی۔ مجھے زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ میرے بدن پر جو لباس ہے اس کی قیمت کے برابر پیسے کبھی میرے پاس نہیں رہے۔

مجھے اس عمل کے کسی مرحلے پر یہ احساس نہیں ہوا کہ کوئی مجھے رکھ لے گا۔ اور یہ احساس ہوتا بھی کیوں؟ میں نے کبھی موزوں لوگوں سے رابطہ نہیں رکھا تھا، میں نے کسی اچھے سکول سے تعلیم نہیں پائی تھی اور نہ ہی مجھے اتنی خود اعتمادی تھی جو مجھے کامیابی سے ہمکنار کرتی۔

تو آپ میری حیرت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جب مجھے سب اہم وہ ای میل موصول ہوئی جس میں مجھے کام کی پیشکش ہوئی تھی۔

نوجوانوں میں بے گھری

  • برطانیہ میں 16 سے 24 سال کے ایک لاکھ سے زائد بے گھر یا بے گھری کے خطرے سے دو چار افراد ہر سال اپنی کونسل سے رابطہ کرتے ہیں
  • کورنوال کونسل کہتی ہے کہ سنہ 2017-18 کے دوران 354 نوجوانوں نے بے گھری کے مسئلے کی سبب اس سے رابطہ کیا
  • نوجوانوں میں بے گھری کا عام سبب خاندان کا ٹوٹنا ہے۔ تقریباً دو تہائی افراد کی بے گھری کی وجہ یہ ہی ہے
  • اس کی وجہ مارپیٹ یا گالم گلوچ، والدین یا بچوں کے نفسیاتی مسائل، غربت اور محرومی، گھر میں زیادہ افراد کا ہونا، اور مذہبی یا ثقافتی اختلافات ہو سکتے ہیں۔
  • سینٹر پوائنٹ پیر سے جمعہ تک 16 سے 24 برس کے بے گھر افراد کے لیے ہیلپ لائن چلاتی ہے۔ اس کے علاوہ آن لائن چیٹ کے ذریعے بھی مدد دستیاب ہے

ذریعہ: سینٹر پوائنٹ

وہاں پہلے دن کے بعد مجھے رونا آیا کیونکہ میں واحد لڑکی تھی جو کسی پرائویٹ یا گرامر سکول سے نہیں آئی تھی اور جو رات کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کی استطاعت نہیں رکھتی تھی۔ یہ مختصر دورانیے کا پروگرام تھا مگر میں نے اپنی جگہ بنا لی تھی۔

کے پی ایم جی نے ہمیں بتایا کہ ہم اس ادارے میں ملازمت کی سیڑھی پر جلد چڑھ سکتے ہیں کیونکہ ہم نے کچھ امتحان پہلے ہی پاس کر لیے ہیں۔ اگرچہ میں اکاؤنٹنگ میں جانا چاہتی تھی مگر حتمی طور پر یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ میں کے پی ایم جی ہی میں کام کروں گی۔ میں بار بار خود سے کہتی تھی تم یہاں تک آ گئی ہو، اب تمھیں کوئی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اس کا بڑا فائدہ ہوا۔

کالج میں میرا دوسرا سال شروع ہو گیا تھا۔ میں نے نفسیات میں As اور معاشیات میں B گریڈ حاصل کر لیا تھا۔ میں نے اکاؤنٹنگ میں بھی ایک سند حاصل کر لی تھی۔

میں بہت خوش تھی کیونکہ اب میں کورنوال میں فرانسِس کلارک میں اپرنٹِس شپ حاصل کر سکتی تھی۔ اس وقت میں وہیں ہوں اور سب بہت اچھا چل رہا ہے۔ اگلے سال میری اپرنٹس شپ ختم ہونے کے بعد میں اسی فرم میں کام کرنا چاہتی ہوں۔

اب میں 20 سال کی ہوں اور میرے خیال میں لوگ میرے حال سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ محنت کریں تو مشکل حالات سے نکل سکتے ہیں۔ میرے خیال میں، میں ان لوگوں کی آواز بن سکتی ہوں جو نہیں جانتے کہ اپنی بات کیسے دوسروں تک پہنچائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp