’ہر گراؤنڈ‘: ایسی ویب سائٹ جو خواتین کیے لیے ماہواری سے متعلق اشیا کی خریداری آسان بنائے


پاکستان کے شہر اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی صدف ناز کو جب پہلی بار ماہواری ہوئی تو وہ نویں جماعت میں تھیں۔ وہ بچپن ہی سے ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھتی تھیں اور ہر وقت والد کا لیپ ٹاپ لیے نئی دریافت ہونے والی بیماریوں پر تحقیق کرتی تھیں۔

لیکن پیریڈز یا ماہواری کس بَلا کا نام ہے، یہ نہ انھیں کسی نے بتایا تھا اور نہ ہی ان کی انٹرنیٹ ریسرچ میں کبھی اس کا ذکر ہوا۔

’اس دن میں سارا وقت پریشان رہی۔ میں نے کئی آن لائن بلاگز میں پڑھا تھا کہ اگر کسی شخص کو بلڈ کینسر ہو جائے تو اس کے جسم سے خون آنا شروع ہوجاتا ہے۔ میں گھبرا گئی کہ کہیں مجھے بلڈ کینسر تو نہیں ہو گیا۔ لیکن جب امی سے اِس کا ذکر کیا تو وہ ہنس پڑیں۔‘

یہ صرف ایک صدف ناز کی کہانی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں بسنے والی لاکھوں کروڑوں لڑکیوں کی کہانی ہے جو بچپن سے گزر کر بلوغت کی دہلیز پر تو پہنچ جاتی ہیں لیکن نہیں جانتیں کہ اسے پار کیسے کرنا ہے۔

بے حیائی کی باتیں

تولیدی اور ماہواری صحت کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس موضوع پر بات کرنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔معاشرہ مذہب اور سماجی اقدار کا سہارا لے کر عورتوں کی جنسیت کو ایک ایسا موضوع بنا کر پیش کرتا ہے جس پر گفتگو کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں لڑکیوں کے لیے ماہواری سے متعلق معلومات کے حصول کا بنیادی ذریعہ والدہ یا بڑی بہنیں ہوتی ہیں۔

ماہواری

                                                                       صدف ناز اتفاق کرتی ہیں کہ ماہواری اور حیض کے دوران حفظانِ صحت سے متعلق لڑکیوں کی معلومات ناکافی ہیں

یہ معلومات بھی لڑکیوں کو اس وقت دی جاتی ہے جب انھیں پہلی مرتبہ ماہواری ہو چکی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بہت سی لڑکیاں اپنی ماہواری کا آغاز بے خبری اور بغیر تیاری کے کرتی ہیں۔

صدف ناز اتفاق کرتی ہیں کہ ماہواری نظام اور حیض کے دوران حفظانِ صحت سے متعلق لڑکیوں کی معلومات ناکافی ہیں۔

’اگر میں ایک عام لڑکی کی بات کروں تو اسے ایک خاص عمر کے بعد اپنے جسم میں آنے والی تبدیلوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔ جب وہ کچھ تبدیلیاں محسوس کرتی ہے تو معاشرے سے الگ تھلگ رہنا شروع کر دیتی ہے۔ باہر نکلنا چھوڑ دیتی ہے، کھیلنا بند کر دیتی ہے اور بات چیت کم کر دیتی ہے۔‘

صدف کے بقول لڑکیاں ذہنی طور پر ماہواری کے تجربے کے لیے تیار نہیں ہوتیں کیونکہ انھیں بتایا ہی نہیں جاتا کہ یہ ایک قدرتی عمل ہے جو ہر لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔

’میری امی نے یہ تک نہیں بتایا کہ اب مجھے ہر ماہ پیریڈز ہوں گے اور مہینے کے کتنے دن ہوں گے۔ میں یہ سمجھنے لگی کہ ایسا صرف میرے ساتھ ہی ہو رہا ہے۔ یہ اس لیے تھا کیونکہ اس بارے میں بات ہی نہیں ہوتی تھی۔‘

کپڑے کا استعمال

صدف ناز یاد کرتی ہیں کہ پہلے پیریڈ کے آغاز پر ان کی والدہ نے انھیں ایک کپڑا دیا اور اسے استعمال کرنے کا طریقہ سمجھایا۔

’کپڑا میں نے پانچ سال استعمال کیا۔ یہ ایک بہت عجیب تجربہ تھا۔ میں لڑکوں کے ساتھ پڑھتی تھی اور ہر ماہ جب پیریڈز ہوتے تھے تو سوچتی تھی کہ کیسے سکول جاؤں گی اور کیسے کلاسز لوں گی۔ مجھے یہ بھی پریشانی تھی کہ استعمال کے بعد کپڑے کو پھینکوں گی کہاں کیونکہ ہمارے سکول میں استعمال شدہ پیڈز کو تلف کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔‘

پیڈز خریدنا آسان نہیں

جب صدف اوکاڑہ سے لاہور منتقل ہوئیں اور اپنی دوستوں سے سینٹری پیڈز کے بارے میں سنا تو ان کو خواہش ہوئی کہ وہ بھی پیڈز استعمال کریں۔

’امی نے صاف انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے تمام عمر کپڑا استعمال کیا ہے۔ یہ پیڈز بڑے شہروں کی لڑکیوں کے چونچلے ہیں۔ امی کہتی تھیں کہ وہ سکول ٹیچر ہیں اور سارا شہر ان کو جانتا ہے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ صدف کی امی اب پیڈز خرید رہی ہیں۔‘

بازار جا کر پیڈز خریدنا صدف کے لیے ایک مشکل مرحلہ تھا۔

’میں اپنی دوست کے ساتھ گھر کے قریب ایک دکان پر گئی تو دکان دار نے ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ پھر پیڈز کو خاموشی سے کاغذ کے ایک بھورے رنگ کے لفافے میں بند کر کے کاؤنٹر کے نیچے سے تھما دیا۔‘

’ہمیں ایسا لگا کہ ہم منشیات یا کوئی غیر قانونی چیز خرید رہے ہیں۔ دکان دار اکثر طنزیہ جملے کستا اور کئی بار ہنستا بھی تھا۔‘

صدف کے مطابق پاکستان جیسے معاشرے میں بہت سی لڑکیاں صرف اس لیے پیڈز استعمال نہیں کر پاتیں کیونکہ محلے کی دکان سے پیڈز خریدنا ان کے لیے ایک مشکل تجربہ ہوتا ہے۔

’چھوٹے شہروں یا دیہات میں دکان دار اکثر والد یا بھائی کا جاننے والا ہوتا ہے اس لیے لڑکی جھجھک کے باعث گھر کے کسی مرد کو پیڈز لانے کا نہیں کہہ سکتی۔ اور بڑے شاپنگ مال جانا ہر لڑکی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔‘

مہنگے پیڈز

ماہواری کے دوران غیر محفوظ طریقوں کے استعمال کی ایک بڑی وجہ درآمد شدہ پیڈز کا مہنگا ہونا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق قوتِ خرید سے باہر ہونے کے باعث پاکستان میں ستر فیصد سے زائد خواتین سینٹری پیڈز استعمال نہیں کرتیں۔

رواں سال مارچ میں بی بی سی کی جانب سے کیے گئے ایک جائزے کے مطابق پاکستانی خواتین حیض سے متعلق اشیاء اور ادویات پر ایشیا کے 18 ممالک میں سب سے زیادہ رقم خرچ کرتی ہیں۔

ماہواری
                                                                      تولیدی اور ماہواری صحت کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس موضوع پر بات کرنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے

اس سروے کے مطابق پاکستانی خواتین اپنی ماہانہ آمدنی کا تقریباً چھ فیصد ایسی مصنوعات اور ادویات پر خرچ کرتی ہیں جو انھیں ماہواری کے درد اور اس سے منسلک دوسرے مسائل سے نمٹنے میں مدد کرتی ہیں۔ یہ رقم ان اخراجات سے نسبتاً دوگنی سے بھی زیادہ ہے جو ایک اوسط پاکستانی گھرانہ صحت یا تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔

راکھ، پتّے اور مٹی

مہنگے پیڈز کی وجہ سے کم آمدنی والے علاقوں خاص طور پر دیہات میں رہنے والی خواتین کی اکثریت ماہواری کے دوران اپنی صحت کا مناسب انداز میں خیال نہیں رکھ پا رہی۔

صدف ناز بتاتی ہیں کہ دیہات میں صورتحال اس قدر خراب ہے کہ عورتیں اپنی استعمال شدہ قمیض سے پیڈز بناتی ہیں۔ کچھ خواتین کھجور کے پتے پر راکھ رکھ کر اسے رسی کے ساتھ اپنے جسم سے باندھ لیتی ہیں۔ کچھ علاقوں میں حیض کے دوران مٹی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

’فرض کریں کہ کسی گھر میں چار بیٹیاں ہیں تو ان کے پیڈز کا ماہانہ خرچ ہی کئی ہزار روپے سے تجاوز کر جائے گا جو ایک غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔‘

پیریڈز میں شرم کیسی؟

صدف ناز کے بقول معاشرتی رویے کے باعث یہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین کی ماہواری صحت ایک ایسا معاملہ ہے جسے بہت ڈھکا چھپا ہونا چاہیے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے نئی نسل جنم پاتی ہے۔

ماہواری

                                                                        مہنگے پیڈز کی وجہ سے اکثر خواتین ماہواری کے دوران اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ پا رہی

صدف کی خواہش ہے کہ پاکستان میں عورتوں کی تولیدی اور ماہواری صحت کے بارے میں بے جا حساسیت کو ختم کر کے اِس بارے میں گفتگو کا آغاز کیا جائے تاکہ لاکھوں کروڑوں لڑکیاں صحت مند زندگی گزار سکیں۔

’اس وقت ہمارے یہاں صورتحال یہ ہے کہ جیسے ہی لڑکی کو پیریڈز شروع ہوتے ہیں تو انھیں گھر بٹھا دیا جاتا ہے۔ ان کو باہر جانے اور کھیلنے سے بھی منع کر دیا جاتا ہے۔ توہم پرستی کی وجہ سے ٹھنڈی اور کھٹی چیزیں کھانے سے روک دیا جاتا ہے۔ کئی گھرانوں میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ماہواری کے دوران لڑکی کنگھی بھی نہ کرے۔‘

جان لیوا بیماریاں

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر تین میں سے ایک عورت ماہواری کے دوران غیر محفوظ طریقے استعمال کرنے کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے۔

ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں کے باعث بے شمار خواتین جنسی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں جو جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔

’غیر محفوظ طریقوں کا استعمال عورتوں میں پیشاب کی نالی کے انفیکشن کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ حیض کی باقاعدگی کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں ماں بننے کی صلاحیت کو بھی ختم کر سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر عائشہ کے مطابق اِس طرح نا صرف عورتوں کی مجموعی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ گردوں اور جسم کے نچلے حصے میں ہونے والی دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہو سکتی ہیں۔

پیریڈز کے دوران احتیاط

ماہرین کے مطابق عورتوں خاص طور پر کم عمر لڑکیوں کو ماہواری کے دوران احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر عائشہ احمد کے مطابق لڑکیوں کو حیض کے دنوں میں جسم کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

’سب سے اہم بات یہ ہے کہ ماہواری کے دوران سینٹری پیڈز کا استعمال کیا جائے اور ایک پیڈ کو چند گھنٹوں سے زیادہ ہرگز استعمال نہ کیا جائے کیونکہ اس سے انفیکشن کا اندیشہ ہوتا ہے۔ پیڈز کو ایک بار استعمال کے بعد تلف کر دیا جائے کیونکہ ان کا دوباہ استعمال بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر عائشہ نے بتایا کہ بحالت مجبوری صاف کپڑے کا استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن دوبارہ استعمال سے پہلے اسے گرم پانی سے اچھی طرح دھو کر خشک کرنا ضروری ہے۔ کپڑے کا استعمال صرف اس صورت میں کیا جائے جب سینٹری پیڈز دستیاب نہ ہوں۔

ماہواری

                                                                 ماہواری سے متعلق اشیاء کی خریداری میں حائل مشکلات کے ذاتی تجربے کے بعد صدف ناز نے اس کا حل نکالنے کا بیڑا اٹھایا

ڈاکٹر عائشہ کے مطابق عام طور پر لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ ماہواری کے دوران نہانے سے گریز کریں۔ یہ رویہ انتہائی غلط ہے۔ طبّی نقطہ نگاہ سے خواتین کو ماہواری کے دوران باقاعدگی سے غسل کرنا چاہیے۔

بزنس آئیڈیا

پاکستان میں ماہواری سے متعلق اشیاء کی خریداری میں حائل سماجی اور معاشی مشکلات کا ذاتی طور پر تجربہ کرنے کے بعد صدف ناز نے اس کا حل نکالنے کا بیڑا اٹھایا۔

’میں لاہور کے ایک دواساز ادارے میں ملازمت کر رہی تھی اور ہم بیس خواتین اکثر ساتھ بیٹھ کر اپنے مسئلے شیئر کیا کرتی تھیں۔ ایک بار میں نے ایسے ہی سوال کیا کہ کیا آپ لوگوں کو بھی سینٹری پیڈز خریدنے میں مشکل ہوتی ہے۔ تو ان سب کا جواب تھا کہ ہر عورت کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے۔ تم کوئی انوکھی لڑکی نہیں ہو۔‘

صدف کہتی ہیں کہ اگلی بار وہ سینٹری پیڈز خریدنے گئیں تو بجائے ایک کے انھوں نے اکیس پیڈز کے پیکٹ خرید لیے۔

’دکان دار سمجھا کہ شاید میں سارے سال کا سٹاک کر رہی ہوں۔ اگلے دن میں نے دفتر جا کر وہ پیڈز اپنی ساتھیوں کو دے دیے اور ان سے پیسے لے لیے۔ تو مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ ایک ویب سائٹ بنائی جائے اور دوسری بے شمار لڑکیوں کو یہ سہولت فراہم کی جائے۔‘

اِس طرح صدف ناز کے ادارے ‘ہر گراؤنڈ’ کی بنیاد پڑی۔

پیڈز جو گھر بیٹھے مل جائیں

‘ہر گراؤنڈ’ کے ذریعے پاکستان کے 17 شہروں میں خواتین ماہواری کے دوران استعمال ہونے والی اشیاء آن لائن آرڈر کر سکتی ہیں جو چوبیس گھنٹوں میں ان کے گھروں تک پہنچ جاتی ہیں۔

’ہماری ویب سائٹ پر مختلف برانڈز کی مصنوعات بازار کے نرخوں پر فروخت کی جا رہی ہیں۔ ان میں سینٹری پیڈز، ٹیمپونس، پینٹی لائنرز، ہیئر ریموونگ کریمز اور انڈر گارمنٹس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پیریڈز کے دوران موڈ سوئنگز سے نمٹنے لیے خواتین چاکلیٹس یا اس طرح کی دوسری چیزیں بھی منگوا سکتی ہیں۔‘

صدف بتاتی ہیں کہ ہر گراؤنڈ کے ذریعے اب مانع حمل پراڈکٹس کی فروخت کا آغاز بھی کیا جا رہا ہے۔

ماہواری

                                                                 ایک اندازے کے مطابق سکولوں میں ماہواری سے متعلق مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث 20 فیصد لڑکیاں غیر حاضر رہتی ہیں

سکول کی بچیوں میں ماہواری سے متعلق آگاہی

ایک اندازے کے مطابق سکولوں میں ماہواری سے متعلق مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث بیس فیصد لڑکیاں غیر حاضر رہتی ہیں جن میں سے اکثر آگے چل کر پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں۔ صدف ناز اِس مسئلے کی جانب نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

‘ہمارے اکثر سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں لڑکیوں کے لیے الگ ٹوائلٹس نہیں ہیں کہ وہ اطمینان سے اپنا پیڈ تبدیل کر سکیں۔ کسی سکول میں ایمرجنسی کٹس نہیں ہیں تاکہ اگر بچی کو سکول ٹائم میں پیریڈز ہو جائیں تو اُسے پیڈ فراہم کر دیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’صورتحال اس قدر خراب ہے کہ سکولوں میں استعمال شدہ پیڈز پھینکنے کے لیے کوڑے دان تک نہیں ہیں۔ بے شمار سکولوں کے واش رومز میں پانی کی سہولت بھی موجود نہیں ہوتی۔ اس صورتحال میں لڑکیاں کیسے اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں۔‘

صدف ناز کی ویب سائٹ ’ہر گراؤنڈ‘ دور افتادہ اور کم آمدنی والے علاقوں میں لڑکیوں کو ماہواری کے دوران حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنے کے بارے میں آگاہی فراہم کر رہا ہے۔‘

’اِن علاقوں میں اکثر لڑکیوں کو اپنے جسم میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ ہم انھیں ماہواری اور تولیدی صحت کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں تاکہ اُن کی جھجھک ختم ہو۔‘

صدف ناز کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ وہ سکولوں میں انتہائی کم قیمت پر سینٹری پیڈز فراہم کر رہی ہیں تاکہ کم از کم سکول جانے والی بچیاں غیر محفوظ طریقوں کے بجائے پیڈز استعمال کر سکیں۔

پیڈمین

صدف ناز مقامی طور پر ایسے سینٹری پیڈز تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جو نا صرف کم قیمت بلکہ ماحول دوست بھی ہوں۔

’پیڈمین کے نام سے مشہور سماجی کارکن اور کاروباری شخصیت اروناچلم مورگاننتھم کو انڈیا میں مقامی طور پر تیار کردہ کم قیمت ماہواری پیڈز متعارف کرانے کا سہرا جاتا ہے۔

انھوں نے دیہی علاقوں میں خواتین کی ماہواری صحت کی دگرگوں صورتحال دیکھ کر ایسی دیسی ساختہ مشینیں بنائیں جن سے تیار کردہ پیڈز کی قیمت بازار میں فروخت کیے جانے والے پیڈز سے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔

آج اروناچلم مورگاننتھم کی تیار کردہ مشینری انڈیا کی 29 میں سے 23 ریاستوں میں سستے سینٹری پیڈز تیار کر رہی ہے۔ اروناچلم کا ارادہ ہے کہ اس منصوبے کو دنیا کے سو سے زائد ممالک میں متعارف کرایا جائے۔

سنہ 2014 میں ٹائم میگزین نے اروناچلم مورگاننتھم کو دنیا کی سو بااثر شخصیات کی فہرست میں شامل کیا جبکہ سنہ 2018 میں بننے والی بالی ووڈ فلم ’پیڈمین‘ ان کی زندگی اور جدوجہد پر مبنی تھی۔

سنہ 2018 میں ہی اروناچلم مورگاننتھم پر بننے والی مختصر دورانیے کی دستاویزی فلم ’پیریڈ: اینڈ آف سینٹینس‘ کو بہترین ڈاکیومنٹری کا آسکر ایوارڈ بھی ملا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ’پیڈمین‘ کو پاکستان کے فیڈرل فلم سینسر بورڈ نے غیر اخلاقی اور مذہبی اقدار سے متصادم قرار دے کر نمائش کی اجازت نہیں دی تھی۔

سستے پیڈز

ڈاکٹر عائشہ احمد کا ماننا ہے کہ پاکستان میں ماہواری صحت کے بارے میں آگاہی کے ساتھ ساتھ مقامی طور پر تیار کردہ سستے سینٹری پیڈز ہی اِس مسئلے کا واحد حل ہے۔

’سینٹری پیڈز کی تیاری میں استعمال ہونے والا کپڑا درآمد کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اِس کی لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں حکومت کو پیڈز تیار کرنے والی لوکل کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ درآمدی پیڈز پر ٹیکسوں میں چھوٹ بھی دینی چاہیے۔‘

یاد رہے کہ گذشتہ برس انڈیا کی حکومت نے ماہواری کے دوران استعمال ہونے والی مصنوعات پر عائد 12 فیصد ٹیکس واپس لے لیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp