آزادی مارچ، میڈیا بلیک آوٹ کا فائدہ دشمن نے اُٹھالیا


ریاست جموں کشمیر میں آگ لگ چکی، تاریخ میں پہلی بار لائن آف کنٹرو ل کے دونوں اطراف کے عوام ایک ساتھ اْٹھ کھڑے ہوئے ہیں، خطہ پونچھ کے عوام نے 1947 کا کردار دہرانے کی بنیاد پھر سے رکھ دی، متحدہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سابق چیئرمین اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (صغیر گروپ) کے موجودہ چیئرمین سردار صغیر ایڈووکیٹ کی قیادت میں راولاکوٹ سے تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ تک تاریخ سازآزادی مارچ اس کا گواہ ٹھہرا۔ مقبوصہ کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی، ایک ماہ سے جاری کرفیو، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور ایل او سی پر نہتے شہریوں کی شہاد توں کے خلاف ہزاروں کشمیریوں نے ان کی کال پر لبیک کہا اور اظہار یکجہتی کے لیے ایل او سی کی جانب مارچ کیا، انتظامیہ کی جانب سے رکاوٹوں کے باوجود آزادکشمیر کے دوسرے اضلاع سے بھی نوجوان ان کے کندھے سے کندھا ملاتے گئے اور ہجیرہ شہر میں داخل ہونے تک آزادی مارچ کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی تھی جس کا اندازہ شاید سردار صغیر خان کو تھا اور نہ ہی کسی بھی احتجاج میں بندوں کا حساب کتاب رکھنے والوں کو۔

لائن آف کنٹرول پر واقع ہجیرہ شہر میں گھروں اور دکانوں کی چھتوں سے ریاست کی ماؤں اور بیٹیوں نے پھول نچھاور کر کے سردار صغیر خان کا ایسے استقبال کیا جیسے کوئی محمد بن قاسم ان کے دکھوں کا مداوا کرنے آن پہنچا ہو، یہاں کے باسیوں نے اس سے پہلے ایسے اجتماع صرف الیکشن کے دنوں میں ووٹ مانگنے والوں کے ہی دیکھ رکھے تھے۔ شہر میں داخل ہوتے ہی پولیس کی جانب سے آزادی مارچ کو روکنے کے لیے آنسو گیس کا اندھا دھند استعمال اور لاٹھی چارچ کیا گیا اور رہنماؤ ں سمیت کئی افراد بے ہوش ہو کر ہسپتال جا پہنچے مگر قافلہ پھر بھی نہ رْکا۔

اس تصادم میں کئی پولیس اہلکار اور افسران بھی زخمی ہوئے۔ دن بھر کی شدید جھڑپوں کے بعد رات کے اندھیرے میں پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے سردار صغیر خان کی قیادت میں مظاہرین کی ایک بڑی تعداد بھارتی چوکیوں کے عین سامنے اپنی منزل تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ پہنچ گئی اور طے شدہ ایجنڈے کے مطابق دھرنا دے دیا گیا کیونکہ اس مارچ کا مقصد کنٹرول لائن عبور کرنا ہر گز نہیں صرف بھارتی بندوقوں کے سامنے جاکر مقبوضہ کشمیر اور ایل او سی پر بسنے والوں سے اظہار یکجہتی کرنا تھا۔

مارچ کے دیگرشرکاء بھی ٹولیوں کی صورت میں دوسرے دن تک رکاوٹیں توڑتے ہوئے تیتری نوٹ پہنچتے گئے تواظہار یکجہتی کرنے والوں کابھی تانتا بند گیا جس میں الحاق پاکستان کی داعی جماعتوں کے سیاسی کارکن بھی شامل تھے۔ یوں شہداء کربلا کی طرح سات محرم الحرام کو راولاکوٹ سے چلنے والا یہ قافلہ آٹھ محرم کو بزل دشمن بھارت کی فوجی چوکیوں کے سامنے خیمہ زن ہوا اور دس محرم الحرام کو اپنے مقصد میں کامیابی کے ساتھ امر ہو کر واپس لوٹا۔

اب آتے ہیں اس مارچ کے ایک دوسرے اہم پہلو کی جانب کہ کیسے ناعاقبت اندیشی میں ہم نے اس تاریخ ساز آزادی مارچ کا مکمل میڈیا بلیک آوٹ کر کے بھارتی ٹی وی چینلز سمیت عالمی میڈیاکو بھی پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس مارچ کے دوران پولیس تشدد کے خلاف، ایک دھڑے کے چند مشتعل نوجوانوں نے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے خلاف نعرہ بازی کی جسے بنیاد بنا کربھارت نے بھرپورجھوٹا پرو پیگنڈا کیا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام آزادی کے لیے اْٹھ کھڑے ہوئے ہیں، کوئی شک نہیں کہ بھارت ایسے منفی ہتھکنڈوں کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتالیکن خود کو عقل کل سمجھنے والوں کو بھی یہ ادراک کرنا ہوگا کہ پاکستانی میڈیا کا کردار صرف ٹویٹس چلانے تک محدود کرنے اور اس کا بازو مروڑ کر کمر کے ساتھ لگانے کے مثبت نتائج نہیں نکلیں گے، تحریک آزادی کشمیر کے اس نازک موڑ پر کشمیری قیادت اور میڈیا ایکسپرٹ کے ساتھ مل کر آزادکشمیر میں ہونے والے بھارت مخالف احتجاج کی موثر کوریج کے حوا لے سے جامع میڈیاپالیسی بنانی ہو گی تاکہ مستقبل میں کسی بھی احتجاج پر بھارت کو ایسا منفی پروپیگنڈا کرنے کا موقع نہ ملے کیونکہ احتجاج کا یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں۔

راولاکوٹ سے تیتری نوٹ تک یہ آزادی مارچ اگر براہ راست نہیں تو کچھ تاخیر اور قابل اعتراض مواد کی ایڈیٹنگ کے ساتھ دکھا کر دنیا کو بھرپور پیغام دیا جاسکتا تھاکہ یہ ہزاروں افرادبھارت کے ریاستی ظلم و جبر کے شکار اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے لائن آف کنٹرول پار کرکے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور آزادکشمیر کی حکومت کو انہیں روکنے کے لیے مجبوراً اپنے ہی معصوم شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال بھی کر نا پڑ رہا ہے، لیکن دنیا جان لے کہ آزادی کے جذبے سے سرشار ان لوگوں کو زیادہ دیر تک روکنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہو گا، لیکن اس رُخ پر سوچنے کی کسی نے زحمت ہی گوارا نہ کی۔

یہاں اس بات کی بھی آزادانہ اور ٹھوس تحقیقات ہونی چاہیں کہ آزادکشمیر میں ہونے والے ایسے مظاہروں اور قابل اعتراض نعروں کی ویڈیو ز فوری طور پر دہلی تک کیسے پہنچ جاتی ہیں؟ ا س کے پیچھے کون سے عناصر کار فرما ہیں اور ان کے تانے بانے کہاں جاکر ملتے ہیں کیونکہ ایسے اقدامات سے تحریک آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

کشمیر کی تازہ ترین صورتحال میں ریاست پاکستان کو بھی اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ پانچ اگست کے بعد آزادکشمیر کے عوام کے شک وشبہات میں کئی حوالوں سے اضافہ ہوا ہے، پاکستان اور آزادکشمیر کے عوام کے درمیان باہمی اعتماد کی فضاء پہلے جیسی نہیں رہی، عام عوام کی ایک بڑی خاموش اکثریت خاص کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے نظریات پر مسلسل نظر ثانی کر رہے ہیں جو کل تک کسی مصلحت کا شکار تھے، انہیں خدشہ ہے تقسیم کشمیرکی راہ ہموار ہو رہی ہے اور اگر اب بھی وہ چپ رہے تو یہ لاکھوں شہدا ء کے خون کے ساتھ غداری ہوگی جس پر تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

ایسے میں حکومت پاکستان اور اداروں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ا ور یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ جنگ طویل ہے لیکن ہر حال میں میڈیا اور انسانی حقوق کے محاذ پر ہی لڑی جائے گی اور اس کے لیے آزادکشمیر کے ہر ایک فرد کی حمایت ناگزیر ہے۔ تمام ا سٹیک ہولڈرز بشمول خود مختار کشمیر کی حامی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مکالمے کو فروغ دینا ہوگاورنہ مکار بھارت مزید مشکلات پیدا کرتا رہے گا۔ قومی ا تحاد کے ساتھ بھارتی پراپیگنڈے کاجواب دینے کے بجائے اگر آزاد کشمیر میں عوامی جذبات کو دبانے کی پالیسی اپنائی گئی تو اس کے نتائج تباہ کن ہو ں گے، آزادکشمیر میں بھارت کے خلاف ہر روز ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا میڈیا بلیک آوٹ جاری رکھنا ہے یا دانشمندی کے ساتھ اس کے ثمرات سمیٹنے ہیں، فیصلہ بروقت ہو نا چاہیے تاکہ کچھ، فیض، بھی حاصل ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).