جنسی ہراسانی کے الزامات اور مظلوم مرد


عورت صنف نازک ہے اس پر ظلم ہوتا ہے۔ میں اپنے ایک پہلے کالم میں بھی لکھ چکی ہوں کہ عورت دنیا کی مظلوم ترین صنف سمجھی جاتی ہے۔ لیکن بعض کیسز میں عورت اتنی مظلوم ہوتی نہیں جتنا وہ ظاہر کرتی ہے۔ سفاکی کی علامت سمجھے جانے والے مرد پر اکثر نازک سی عورت حاوی ہو جاتی ہے اور اس قدر حاوی ہوتی ہے کہ اپنی ہی کمزوریوں کے سبب مرد کو پھر اپنی عزت بچانا مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتا ہے۔ کیونکہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اکثر مرد خواتین کو ہراساں کرتے ہیں، عورت پر ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں، عورت کی تذلیل بھی کرتے ہیں۔

اور اس حوالے سے خاصے بدنام ہیں لہذا عورت جانتی ہے کہ اگر وہ کسی مرد پر جنسی ہراسانی کا الزام لگا دے یا گھریلو جھگڑے کو بڑھا چڑھا کر پیش کردے تو خواتین تو ایک طرف اس معاشرے کے ظالم مرد بھی بنا تصدیق کے عورت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ بات سنتے ہی یہ تسلیم کر لیا جائے گا کہ مرد بدکردار اور ظالم ہوگا کہ مرد کا امیج ہی ایسا بن چکا ہے۔ دکھ یہ ہے کہ اس امیج کے بنانے میں بھی مرد کا اپنا ہی کردار ہے کہ مرد کے اندر کی ہوس نے اس کو برباد کر رکھا ہے کہ عورت کا نام سنتے ہی اکثر مردوں کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔

اگر مرد چاہے تو اس لیبل سے چھٹکارا پا سکتا ہے لیکن اس کے لئے مردوں کو اجتماعی کوشش کرنا ہوگی۔ راہ چلتے کی دل لگی، خواتین سے چھیڑ خانی کی عادت پر قابو پا لیا جائے اور بلاوجہ رعب جمانے اور ”میں ہی حاکم ہوں“ جیسی سوچ پر تھوڑا کنٹرول کر لے، اپنے اندر کے ٹھرک پن کو ختم کردے تو یقین کیجیئے پھر وہ کبھی نہ ہو جو کسی بھی عورت کے الزام لگانے پر مرد کے ساتھ ہوتا ہے۔ جنسی ہراسمنٹ آج کل ہاٹ ایشو ہے کہ جنسی ہراسمنٹ کا مسئلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ کوئی ایسا مرد جو خواتین کی دل سے عزت کرتا ہو اور کسی واہیات سوچ کو پاس بھی نہ پھٹکنے دیتا ہو اس پر بھی اگر الزام لگے تو سچ ہی سمجھا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ اگر کسی مرد کی بیوی بھی اس پر جنسی ہراسانی کا الزام لگائے تو بھی لوگ بنا سوچے سمجھے عورت کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مردوں کا ٹھرک پن اور ان کے خود کو حاکم کہلوانے کی شدید خواہش ان کو لے ڈوبی ہے جس کی وجہ سے کبھی وہ جنسی ہراسانی کے الزام میں لوگوں کی نظروں سے گرتے ہیں تو کبھی بیوی پر جسمانی تشدد کے الزام میں۔ کسی بھی الزام میں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ بہت بعد میں ہوتا ہے لیکن مرد گناہ گار ہے یا بے گناہ اس کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی مرد کا کیریئر تباہ ہو سکتا ہے۔

ایسا ہی معاملہ شوبز کی دو مشہور شخصیات کے ساتھ ہوا ہے۔ علی ظفر پر میشا شفیع نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔ جبکہ اس الزام سے پہلے یہ دونوں اچھے دوست تھے اور میشا کی علی ظفر کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تصاویر دیکھ کر لگتا ہے کہ میشا علی ظفر کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے موڈ میں ہیں۔ لیکن میشا کو عورت ہونے کے ناتے فیور حاصل ہے اور علی ظفر کا کیریئر داؤ پر لگا ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ نجی ٹی وی کے مقبول پروگرام ”مذاق رات“ کے ڈی جے محسن عباس کے ساتھ ہوا جب ان کی بیوی نے ان پر جسمانی تشدد کا الزام لگایا۔

اگر تو یہ بات سچ ہے تو انتہائی افسوس ناک ہے، قابل مذمت ہے کہ ایک با شعور انسان ہونے کے ناتے ان سے ایسی توقع نہیں تھی۔ کسی کو جسمانی یا ذہنی طورا پر ہراساں کرنا یا کسی عورت پر ہاتھ اٹھانا انتہائی درجے کا گھٹیا پن ہے۔ عورت پر ہاتھ کسی بھی مرد کی شان تو ہر گز نہیں ہے اگر ان کی آپس میں نہیں نبھ رہی تو بہترین حل علیحدگی ہے نہ کہ عورت پر ہاتھ اٹھانا تاہم یہ ابھی الزام ہے۔ محسن عباس پر لگے اس الزام کی وجہ سے انھیں پروگرام سے علیحدہ کردیا گیا ہے ان دونوں کیسز میں عورت وکٹم بنی ہے اب سچ اور جھوٹ کوئی نہیں جانتا۔

لیکن ایک عورت کے لگائے الزام کی وجہ سے کسی کو بھی نوکری سے فارغ کر دینا بھی دانشمندی نہیں جبکہ فیصلہ ابھی آنا ہو۔ نجی چینل ریکارڈڈ پروگرام اس ٹکر کے ساتھ چلاتا رہا کہ ”جب تک محسن عباس خود کو اس الزام سے بے گناہ ثابت نہیں کرتے تب تک پروگرام کا حصہ نہیں ہوں گے۔“ الزام پر انھیں نوکری سے فارغ کیا گیا۔ پہلی بات تو یہ کہ محسن عباس کا معاملہ ایک خانگی مسئلہ ہے اس میں ”دنیا“ والوں کا کیا کام؟ یہ سراسر ذاتی نوعیت کا معاملہ ہے یا پھر قانونی معاملہ ہے۔

اور پھر ابھی جرم ثابت نہیں ہوا۔ تو جرم کے ثابت ہونے تک ان کے کام پر اثر کیوں؟ اگر میشا شفیع سچی ہیں اور دوسرے کیس میں محسن عباس پر مقدمہ سچا ہے تو بھی ہمارے ہاں جلد اور فوری انصاف کی امید رکھنا سراسر حماقت ہے۔ فیملی کیسز میں بھی فیصلہ کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے تو کیا کیس چلتے رہنے تک گناہ گار یا بے گنا ہ کا فیصلہ آنے تک یہ لوگ بے روزگار رہیں گے ان پر لگے الزام کے ثابت ہونے تک، کام ملنے کے دروازے بند ہونے کا مطلب مزید جرم کو دعوت دینا ہے کہ مالی مسائل بہت سارے دیگر مسائل کو جنم دیتے ہیں۔

خانگی مسائل کو خاندان ہی میں حل ہو نا چاہیے یا پھر اس کے لئے فیملی کورٹس بنی ہیں اس میں جانا چاہیے۔ پبلک فگر ہونے کا فائدہ اٹھاتے کسی کو بھی اگر الزام میں ملوث کیا جاتا ہے تو اس کا فیصلہ عدالت پر چھوڑنا چاہیے نا کہ محض الزام کی وجہ سے اس بندی یا بندے پر معاشی دروازے بند کر دیے جائیں۔ یہ مسئلہ کسی ایک محسن عباس یا علی ظفر کا نہیں ہے۔ یہ ہر اس مرد اور عورت کا مسئلہ ہے جس نے اگر جرم کا ارتکاب نہیں کیا لیکن مرد اور عورت کے ذاتی اختلاف کی وجہ سے دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کو برباد کرنے کی ٹھان لے۔

کبھی کبھار عورت بھی محض ذاتی انتقام کے لئے خود کو تماشا بنانے سے بھی گریز نہیں کرتی اور محض صنف مخالف کو نیچا دکھانے کے لئے کسی بھی حد سے گزر جاتی ہے۔ تو خدارا سچ جھوٹ کا فیصلہ آئے بنا کسی پر بھی یقین نہ کریں۔ ساری خواتین سچی ہوتی ہیں نا سارے مرد جھوٹے۔ معاملہ میشا شفیع کا ہو یا محسن عباس کی اہلیہ کا ان۔ معاملات کو قانونی طور پر حل ہونا چاہیے۔ قصور وار کو سزا ضرور ملنی چاہیے۔ لیکن کسی کے بھی خانگی مسئلے کو قومی غیرت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ اور معاملات کو قانونی طور پر ہی حل کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).