ملکہ پربت اور دس ہزار فٹ بلند کچّی سڑک


ناران کے گنجان آباد بازار سے نکل کر پل کراس کرتے ہوئے سیف الملوک ندی کے بائیں ہاتھ پہاڑ کے دامن کے ساتھ ساتھ ایک سنگل روڈ جھیل کو جاتی ہے۔ سڑک کے کنارے دور تک نئے ہوٹل بن گئے ہیں اور بہت سارے زیر تعمیر ہیں۔ سڑک جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ غور سے دیکھنے پر کہیں کہیں اصلی سڑک کے آثار ملتے ہیں۔ مزید دو تین سالوں میں سڑک تعمیر سے پہلے کی اصل شکل میں بحال ہو جائے گی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جیپ مافیا سڑک نہیں بننے دے رہی۔ ناران میں سینکڑوں جیپیں ہزاروں خاندانوں کا ذریعہ روز گار ہیں۔ سڑک بن گئی تو ان جیپوں پر کون بیٹھے گا۔ میرا خیال ہے کہ حکومت کی روایتی سستی اور وسائل کی کمی سڑک کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

ہماری جیپ ہچکولے کھاتی آہستہ آہستہ بلندی کی طرف گامزن تھی۔ سرسبز پہاڑ اور سفید برف کے گلیشیر اب جیپوں کی گرد سے مٹیالے ہو چکے تھے۔ آٹھ نو کلومیٹر کا سفر کوئی سوا گھنٹے میں طے ہوا۔ جھیل کی پارکنگ میں نیلے اور لال رنگ کی دو ڈھا ئی سو جیپیں کھڑی تھیں۔ ہم نے نمبر یاد رکھنے کی خاطر جیپ کا ایک فوٹو بنایا اور بے ترتیب ڈھابوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے نیچے کی جانب چل پڑے۔ ہزاروں سیاح جھیل کے اطراف میں مزے کرتے پھرتے تھے۔

ہمارے ساتھ ساتھ ایک گھوڑے والا، شہد بیچنے والا اور پشاوری قہوے والا اپنی اپنی پراڈکٹ کی مارکیٹنگ کرتے ہو ئے چل پڑا تھا۔ جھیل تک پہنچتے پہنچتے ایک کہانی سنانے والا بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔ چھوٹو نے کہانی والے سے پوچھا کہ ”آپ وہی کہانی سناؤ گے جو گزشتہ سال سنا ئی تھی؟“ اس نے جواب دیا ”کوئی آپ کو جھوٹی کہانی سنا گیا ہو گا۔ میں آپ کو سچی کہانی سناوں گا جس میں شہزادے سیف الملوک کی پری بدرالجمال سے شادی ہو جاتی ہے۔“ ہم نے دو کپ قہوہ لیا کیونکہ تھکاوٹ ہو رہی تھی اور جھیل کے کنارے پر بیٹھ کرچسکیاں لینے لگے۔ چھوٹو نے کہانی والے کو پیسے دیے۔ شہد اور گھوڑے والے پہلے ہی مایوس ہو کر جا چکے تھے۔

سیف الملوک تقریباًدس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع دنیا کی بلند تریں جھیلوں میں سے ایک ہے۔ برف پوش چوٹیوں میں کوئی ڈھائی کلومیٹر مربع رقبے پر پھیلی ہو ئی یہ جھیل دریائے کنہار کے پانی کا بہت بڑا ماخذ ہے۔ جھیل میں سے ایک بڑی ندی نکلتی ہے جو نو کلومیٹر کا سفر طے کرکے دریا سے مل جاتی ہے۔ اس کے گرد برف پوش چوٹیاں تقریباً سارا سال برف سے ڈھکی رہتی ہیں خاص طور پر ملکہ پربت جو بارہ مہینے مکمل برف کا گہرا لبادہ اوڑھے رکھتی ہے۔ اتنی بڑی ندی نکلنے کے باوجود جھیل کے پانی کی سطح برقرار رہتی ہے۔ جھیل کی گہرائی کا کوئی اندازہ نہیں، نہ ہی اس میں آنے والے پانی کا۔ شاید پہاڑوں کے نیچے بہنے والے چشمے ہوں، جو اس جھیل کو پانی مہیا کرتے ہوں۔

ہم نے ایک کشتی کرائے پر حاصل کی اور جھیل کے دوسرے کنارے کی طرف چل دیے، ہم ادھر اتر نہیں سکے کہ کشتی والا نہیں مانا۔ جھیل میں کشتی رانی کا اپنا مزہ ہے۔ ہمیں جھیل میں کوئی مچھلی نظر نہیں آئی، حالانکہ میں نے پڑھا تھا کہ جھیل میں بڑی ٹراؤٹ پائی جاتی ہے۔ چھوٹو نے بتایا کہ ”جب پری بدرالجمال سفید دیو کے قابو میں نہیں آئی تو غصے میں وہ ساری مچھلیاں کھا گیا۔“

اگلی صبح حسب معمول ناشتہ پنجاب تکہ سے کیا۔ پنجابی امریکہ بھی چلا جائے، ناشتے میں چنے پوری اور لسّی کا متلاشی رہتا ہے۔ ہم نے بہر حال روائیت کو توڑا ہے اور لسّی کی جگہ چائے پیتے ہیں۔ ناشتے کے بعد ہم لالہ زار کے سفر پر روانہ ہو ئے۔ ناران سے بٹہ کنڈی کوئی بیس اکیس کوس دوری پر واقع ہے۔ یہاں سے ایک کچا راستہ لالہ زار کو جاتا ہے۔ یہ عمودی چڑھائی والی کچی سڑک ہے۔ ماسک لئے بغیر آنکھیں اور منہ مٹی سے اٹ جاتے ہیں۔

خواتین کوشش کے باوجود اپنا میک اپ بچا نہیں پاتیں۔ کوئی دو کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد، دس ہزار فٹ کی بلندی پر آلو اور مٹر کی لہلہاتی فصلیں دیکھ کر حیرت واستعجاب میں ڈوبے، جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے قدرت کے کرشمے آنکھوں کے سامنے کھلتے جارہے تھے۔ اتنی بلندی پر اتنا سرسبز و شاداب میدان، خوبصورت ڈھلوانیں، پائن کے درخت اور ملکہ پربت کی چوٹی، واہ! مزہ آ گیا۔ اللہ نے پاکستان کو اتنے خوبصورت و دلکش مقامات سے نوازا ہے، کاش کچھ اچھے حکمران بھی مل جاتے تو ان جنت نظیر علاقوں کی سیاحت کے لئے دنیا ٹوٹ پڑتی۔ لوگ سویٹزرلینڈ بھول جاتے۔ پاکستانیوں کے دل رنگ برنگے پھولوں سے بھر جاتے اور ان کی خوشبو سے سارا پاکستان معطّر ہو جاتا۔

یہاں بھی گھوڑے والے ہمارے تعاقب میں تھے۔ ہم نے تھوڑی بحث کے بعد چھوٹو کو گھڑ سواری کے لئے منا لیا۔ چھوٹو پہلے تو مسکراتی رہی، جونہی گھوڑے نے تیز قدم اٹھائے، چھوٹو کی چیخیں نکلنے لگیں۔ ہم نے گھاس پر چادریں بچھائیں اور دلکش نظاروں میں کھو گئے۔ چھوٹو اور عاشی اوپر دور نکل گئے تھے۔ جتنی دیر میں وہ واپس آئے، ہم چائے کے دو کپ اور پکوڑے کھا چکے تھے۔ چھوٹو یہاں بھی ”کے ایف سی“ ڈھونڈ رہی تھی جبکہ یہاں کی فوڈ سٹریٹ صرف چار ڈھابوں پر مشتمل تھی۔

بادل گھر آئے تھے اور جیپ ڈرائیور کا اصرار تھا کہ بارش سے پہلے نیچے اترا جا ئے۔ ہم نے اس کی بات مان لی مگر تھوڑی ہی دیر میں بارش شروع ہوگئی، تب ہمیں اندازہ ہوا کہ ڈرائیور کیوں جلدی جلدی کا شور مچا رہا تھا۔ ہم کچی سڑک پر پہاڑ سے نیچے اتر رہے تھے۔ وہ سڑک کیا تھی، گارے اور کیچڑ سے بھری پھسلن والی ڈھلوان تھی۔ ڈرائیور بڑی مہارت سے گاڑی سلپ ہونے سے بچا رہا تھا۔ بیگم آیات قرآنی کا ورد کررہی تھی، چھوٹو کی چیخیں نکل رہی تھیں اور ہر سلپ کے ساتھ میرا دل یوں دھڑکتا تھا، جیسے ابھی سینہ پھاڑ کر باہر نکل جائے گا۔ یہاں تو بندے کو پیرا شوٹ باندھ کر جیپ میں بیٹھنا چاہیے کہ ذرا زیادہ سلپ ہو تو ہوا میں اڑنے لگے تب پیراشوٹ کھول کر جان بچائی جائے۔ اللہ اللہ کرکے ہم واپس سڑک تک پہنچے تو جان میں جان آئی۔ ہم تو سیر کے لئے آئے تھے یہ تو اچھا خاصا ایڈونچر بن گیا۔

نیچے لوگ دریا میں رافٹنگ کر رہے تھے۔ میں نے چھوٹو کو کہا ”چلیں ہم بھی رافٹنگ کرتے ہیں۔“ چھوٹو تو مان گئی، بیگم نہیں مانی۔ اس کا خیال تھا، یہ محفوظ نہیں، اور ہم نے کوئی ٹریننگ بھی نہیں لی۔ شام سے پہلے ہم ناران واپس پہنچ گئے۔ ہم نے مچھلیاں پکڑنے کا سامان، ڈوری کانٹا لیا اور دریائے کنہار میں رات تک کنڈی ڈالے بیٹھے رہے، مچھلی کوئی پھنسی نہیں لہٰذا ہوٹل پہنچ کر مچھلی کا آرڈر دیا اور کھانے کا انتظار کرنے لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).