کچرا کچرا ہے


کچرا کچرا ہے چاہے تھوڑا ہو یا بہت، چھوٹا ہو یا بڑا کچرا کچرا ہے۔ کچرا کچرا کیا مشکل ہے لوگوں کے دماغ میں اتنا کچرا بھر گیا ہے کہ ہر طرف کچرا نظر آتا ہے، اے کراچی والو کچرے میں کچرا بن کر جیو۔ ویسے بھی اس شہر کو تو کسی کی نظر کسی کے اعمال کسی کے کرتوت کھاگئے اب باقی جو بچاہے کچرا کھارہا ہے۔ کھلی زمین تو کہیں نظر نہیں آتی کچرے کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں نظر آتی ہیں ان پہاڑیوں پہ رنگ برنگی پلاسٹک کی تھیلیاں پھولوں کی مانند کیا بہار دکھا رہی ہوتیں ہیں کہ دیکھتے ہی دل ودماغ باغ باغ اور معطر ہوجاتے ہیں۔ گھر سے نکلتے ہی گلی کے کونے پر کچرے کا ڈھیر آپ کا استقبال کرے گا ذرا مسجد تک جائیے ارے یہ کیا مسجد کے سامنے کس خوبصورتی سے کچرے کو جمایا گیا ہے کہ دیکھ کر کچرا ڈالنے والوں کی حس ِ کثیف پر فخر ہوتا ہے۔

پرانی کہاوت ہے کہ جتنا کچرا گھر سے نکلتا ہے اتنا پیسہ آتا ہے، پتہ نہیں لیکن کچھ لوگ واقعی کچرے سے کماکما کر دولتمند ہوگئے کیونکہ انھیں کچرے کو برتنا آتا تھا ان کی دیکھا دیکھی سندھ حکومت نے کچرا اٹھا کر ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری کراچی کی شہری انتظامیہ سے لے کر خود کرنے کی ٹھانی لیکن اس کچرے نے تو سندھ حکومت کی گندی کردی۔ سندھ حکومت کی ترقی کے راستے کی دیوار تو کچرے کے پہاڑ بن گئے، اس کچرے کی سیاست نے تو بدنام کرکے ہی رکھ دیا کہ حکومت کسی کام کی ہی نہیں، کچھ کرکے ہی نہیں دیا، گیارہ سال سے حاکم ہیں لیکن حرکتیں محکوم بلکہ مظلوموں والی کہتے ہیں وفاقی حکومت فنڈ ہی نہیں دے رہی جو ہم کھا پی سکیں پچھلے فنڈ پتہ نہیں کہیں کچرے میں اڑ گئے۔

بات کچرے کی تھی کہاں تک پہنچی اب تو حال یہ ہے کہ کچرا کچرا کر گئی مجھ کو میئر کی یہ بات کہ کچرا تو صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ایک زمانے میں چینی کمپنی کو کچرا اٹھانے کی ذمہ داری دی گئی وہ بھی سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑی ہوئی اتنے ملٹی ٹیلینٹڈ کچرے کو دیکھ کر۔ ادھر صاف کیا ابھی دو قدم بھی نہ گئے پلٹ کر دیکھا اس سے دگنا کچرا موجود وہ بھی تھک ہار کر نکل لیے۔ کراچی کو منی پاکستان کہو گے تو ایسا ہی ہوگا ظاہر ہے منی پاکستان میں ہر قسم کا کچرا نظر آئے گا ویسے بھی داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ جتنا گند صاف کریں گے بڑھے گا جب تک کوئی پکا انتظام نہیں ہوگا۔

ادھر ہمارے صدر صاحب نے اپنے زریں خیالات سے نوازا ہے کہ یہ سب کیا دھرا میڈیا کا ہے ان کا بیان ہے ”کچرے کے ڈھیر تقریباً ہر جگہ اور ہر شہر میں ہیں اس وقت کراچی میں چونکہ میڈیا موجود ہے اس لیے کراچی کا ایشو زیادہ اجاگر ہوا“ واہ خوب بیان ہے اپنی بلس میڈیا کے سر منڈھ دی، نا اہلی دیکھئیے پتہ ہے ہر شہر میں کچرے کے ڈھیر ہیں اور آپ کراچی کے کچرے کو میڈیا کا پراپیگنڈہ کہہ رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں یہ میڈیا والے بھی جنھیں کراچی کا کچرا نظر آتا ہے اور شہروں کا نہیں شاباش ہے اس بیان پہ جیتے رہیئے۔

صدر صاحب کو ویسے بھی ایوان ِ صدر کا کچرا بھی نظر نہیں آتا ہوگا کیونکہ یہ ذمہ داری آپ کی نہیں۔ آج سے تمام میڈیا اس کچرا موضوع کو کچرا سمجھ کر بند کردے اور اپنے دماغ کا کچرا کہیں ایسی جگہ پھینکے جہاں سے اس کچرے کی واپسی ممکن نہ ہو، کراچی والو کچرے سے سمجھوتہ کرنا سیکھو اور کچرے کچرے کی رٹ بند کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).