جمہوریت سے عشق اور نیب کا ہانکا


کالم نگار وجاہت مسعود جمہوریت پسند نہیں جمہوریت پرست ہیں۔ پرستش میں سرے سے پرسش کا کوئی باب نہیں ہوتا۔ اسی باعث موصوف سیاستدانوں کو کئی خون معاف کرنے کوتلے رہتے ہیں۔ مالی کرپشن ہمارے سیاستدانوں کے جرائم میں سرفہرست ہے۔ ہمارا مہلک ترین قومی مرض بھی یہی ہے۔ آئینے کی طرح صاف شفاف وجاہت مسعود آئینے کی طرح ہی ظاہر بین پائے گئے ہیں۔

آئینے کو کیا خبر اس بھید کی

ایک چہرہ جسم کے اندر بھی ہے

حالانکہ ادھر ہمارے سیاستدان اتنے بادشاہ لوگ ہیں کہ وہ ریاکاری سے کام لیتے ہوئے اپنے گندے مالی امور چھپانے کو تیار بھی نہیں۔ لیکن جو سرے سے دیکھنا ہی نہ چاہے وہ کیسے دیکھ سکتا ہے؟ ہر ضلع سے ایسے ممبران اسمبلی جواپنے حلقہ کے ترقیاتی کاموں کے لئے سرکاری ٹھیکیداروں سے کمیشن لینے کے روادار نہیں، ان کی گنتی کے لئے ایک ہاتھ کی انگلیاں ہی کافی ہیں۔ زمینوں کے ناجائز قبضے اور نفع بخش پوسٹوں پر تقرری کے لئے تحفے تحائف اور زر نقد ممبران اسمبلی اپنا حق سمجھتے ہیں۔

لیکن ہمارے پیارے وجاہت مسعود پھر بھی نیب کو سیاست کے میدان میں مداخلت کی اجازت دینے کوتیار نہیں۔ ہر قسم کی بیورو کریسی کی کرپشن بجا، لیکن ان پر قابو صرف پاک دامن سیاستدان ہی پا سکتے ہیں۔ پولیس تھانہ ویسے ہی ان سیاستدانوں کے خلاف کوئی شکایت سننے کا کوئی حوصلہ نہیں رکھتے۔ ان کی ٹرانسفر پوسٹنگ کا فیصلہ بہر حال مقامی سیاستدان ہی کرتے ہیں۔ ایک رحجان اور بھی ہے۔ چھوٹے افسران سمجھتے ہیں کہ ان ممبران اسمبلی کے غیر قانونی احکامات اگر ہم نہیں مانیں گے تو ان کی تعمیل کے لئے اوپر سے احکامات آجائیں گے۔ پھر کیوں نہ ہم ہی ان کی تابعداری کر دکھائیں؟

پچھلے دنوں سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالقادر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میاں شہباز شریف اس قومی ہیرو کی تعزیت کے لئے ان کے گھر پہنچے۔ وہاں ان ن لیگی رہنما کو عجب ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ مرحوم عبدالقادر کا بیٹا سلمان قادر ان سے فریادی ہوا کہ ان کا جوہر ٹاؤن لاہور میں واقع پونے تین کنال کا پلاٹ مقامی ن لیگی ممبر صوبائی اسمبلی کے بھائی کے غیر قانونی قبضہ سے چھڑایا جائے۔ یہی پلاٹ ہمارے قومی ہیرو کی عمر بھر کی کمائی تھی۔ اس نے بتایا کہ عدالتی فیصلہ ان کے حق میں ہونے کے باوجود انہیں پلاٹ کا قبضہ نہیں مل سکا۔

اب جلسوں میں لہک لہک کر حبیب جالب کی انقلابی شاعری سنانے والے میاں شہبا ز شریف سے کیا پوشیدہ ہے؟ انہوں نے اپنے ہمراہ جانے والے ممبرقومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے معاملے کو دیکھنے کا کہہ کر اپنی جان چھڑوائی۔ اب یہ معاملہ سردار ایاز صادق دیکھے جا رہے ہیں۔ بس دیکھے ہی جا رہے ہیں۔

پولیس چاہے تو کیا نہیں کر سکتی۔ لیکن اس کے لئے اسے سیاسی محکومی سے آزادی چاہیے۔ اگر ان کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر سیاستدانوں کے طفیل ہوگی تو پھر یہ کیا کر سکیں گے۔ لنڈی کوتل ایک زمانہ میں علاقہ غیر کہلواتا تھا۔ وہاں ہماری پولیس اور عدالتوں کی عملداری نہ تھی۔ پولیس کو مطلوب اشتہاری وہاں پناہ لے کر برسوں مقیم رہتے۔ ادھر اک زمانہ میں ضلع گوجرانوالہ کی تحصیل نوشہرہ ورکاں بھی علاقہ غیر کہلوایا کرتی تھی۔

کالم نگار نے سردار طارق رضا سے نوشہرہ ورکاں کی امن و امان کی تازہ صورتحال کے بارے پوچھا۔ سردار صاحب ان دنوں نوشہرہ ورکاں کے تحصیل ناظم تھے۔ کہنے لگے۔ امن و امان کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ وہاں میں بھی رات گئے جانے کی جرات نہیں کرتا۔ پھر یوں ہوا کہ وہاں قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب آن پڑا۔ اس زمانہ میں گوجرانوالہ کے آر پی او ذوالفقار احمد چیمہ تھے۔ پھر اس لیجنڈ پولیس آفیسر نے ”علاقہ غیر“ نوشہرہ ورکاں میں آتشین اسلحہ فری الیکشن کر دکھایا۔

اس الیکشن پر زمانہ قدیم کی طرح صرف ڈانگ سوٹے نظر آتے رہے۔ آج کل اسی علاقہ غیر کے بے تاج سیاسی بادشاہ مدثر ناہرہ سے نیب کی پوچھ گچھ شروع ہوئی ہے۔ یہ لوگ طلباءسیاست کی راہ سے ان بلندیوں تک پہنچے ہیں۔ اس ناہرہ خاندان پرآمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کا الزام ہے۔ اب یہ اللہ جانے نیب کو کیسے سمجھا پائیں گے کہ پاکستان میں ان طاقتور سیاستدانوں کو ایک اور سہولت بھی میسر ہے۔ ان کے خریدے ہوئے رقبوں کی قیمت بعض اوقات بالکل مفت کے قریب ہوتی ہے۔

ایک ایسے ہی تگڑے سیاستدان کے زیر قبضہ زمین کے اصلی مالک نے ڈرتے ڈرتے اسے تجویز پیش کی۔ کہنے لگا۔ آپ آدھی زمین کا قبضہ مجھے واپس کر دیں۔ باقی آدھی زمین کی بغیر کوئی قیمت اداکیے رجسٹری کروالیں یا پھر زمین کی آدھی قیمت ادا کر کے پوری زمین کی رجسٹری کروالیں۔ اسے یہ دونوں تجویزیں پسند نہ آئیں۔ کہنے لگا۔ نرخ کچھ اور سستا کرو۔ ابھی گرانی بہت زیادہ ہے، اب اس بھاؤ خریدے ہوئے اثاثے آمدن سے زیادہ نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟

اب ”ماشاءاللہ“ یہ خاندان ضلع کے چند بڑے زمینداروں میں سے ہے۔ ادھر لوگوں کا حافظہ اتنا کمزور بھی نہیں کہ وہ ان کے زمانہ طالب علمی کا بے کسی کا زمانہ بھول جائیں۔ جب ان کا خاندان محض چند ایکڑ کا مالک تھا۔ ان کے ذرائع آمدن ناقابل یقین حد تک بہت محدود تھے۔ لیکن یہ بات بھی توہے کہ اگر نیب ان کی آمدن سے زیادہ اثاثوں کی جانچ پڑتال، سیاست میں کرپشن کی روک تھام کے لئے کر رہے ہیں تو پھر یہ درست ہے۔ احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن اگر یہ سب کچھ انہیں ایک خاص جماعت میں ہانکنے کے لئے کیا جا رہا ہے تو پھر یہ بالکل درست نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).