جاسوس کبوتر: سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے خلاف امریکی سی آئی اے کا خفیہ ہتھیار


کبوتر

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا خیال تھا کہ کبوتروں کو سویت روس کے خلاف جاسوسی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے سرد جنگ کے دوران جاسوس کبوتروں کے ذریعے کیے گئے جاسوسی مشن کی تفصیلات سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

صیغۂ راز سے باہر آنے والی سی آئی اے کی فائلز سے پتا چلتا ہے کہ کیسے کبوتروں کو سوویت یونین کے اندر حساس مقامات کی تصاویر بنانے کے خفیہ مشن کے لیے تربیت دی گئی تھی۔

اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیا گیا ہے کہ کیسے پہاڑی کوؤں کو جاسوسی کے چھوٹے آلات سوویت علاقوں میں گرانے اور ڈولفن مچھلی کو زیر آب خفیہ مشن کے لیے تربیت دی گئی۔

سی آئی اے اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ جانور ایجنسی کے خفیہ آپریشنز کی تکمیل کے لیے دیے گئے ’انوکھے‘ ٹاسک پورے کر سکتے ہیں۔

ورجینیا میں قائم سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹرز کے اندر ایک میوزیم بنایا گیا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عام عوام وہاں نہیں جا سکتے۔

جب میں ماضی میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر کا انٹرویو کرنے ہیڈ کوارٹرز گیا تو میں نے جاسوسی کے آلات کے علاوہ وہاں ایک اور عجیب منظر دیکھا۔

یہ ایک کبوتر کا ماڈل تھا جس کے ساتھ چھوٹے کیمرے کو باندھا گیا تھا۔

یہ نظارہ میرے لیے دلچسپی کا باعث اس لیے بھی تھا کیونکہ اس وقت میں جنگ عظیم دوئم میں برطانیہ کی جانب سے استعمال کیے گئے جاسوس کبوتروں پر ایک کتاب لکھ رہا تھا۔

مگر مجھے بارہا بتایا گیا کہ سی آئی اے کے جاسوس کبوتروں کے ذریعے مکمل کیے گئے مشنز ابھی مخفی ہیں اور انھیں عوام کے سامنے نہیں لایا جا سکتا۔

مگر یہ پابندی صرف تب تک کے لیے تھی۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: ’جاسوس کبوتر جانباز خان‘ فرار ہونے میں کامیاب

وہ جاسوس ٹیکنالوجی جو ہم سب استعمال کر رہے ہیں

کویت میں منشیات سمگل کرنے والا کبوتر پکڑا گیا

کیونکہ حال ہی میں جاری کی گئی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1970 کی دہائی میں ’ٹکانا‘ کے نام سے ایک خفیہ آپریشن شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا تھا کہ کبوتروں پر چھوٹے خودکار کیمرے نصب کر کے ان سے تصاویر بنائی جا سکتی ہیں۔

کبوتر ہی کیوں؟

یہ اس لیے کہ کبوتروں میں ایک خاصیت ہوتی ہے بلکہ یہ ان کی سپر پاور ہے۔

وہ یہ کہ انھیں آپ جہاں کہیں بھی چھوڑیں، چاہے دور دراز ایسے مقام پر جہاں وہ پہلے کبھی نہ گئے ہوں، وہ واپسی کا راستہ تلاش کر لیتے ہیں اور اپنے گھر واپس آجاتے ہیں۔

کبوتر

جنگ کے زمانے میں کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے قدیم زمانے سے استعمال کیا جاتا رہا ہے

ہزاروں برس سے کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے تاہم جنگ عظیم اول میں انھیں پہلی مرتبہ خفیہ اطلاعات اکھٹی کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا گیا۔

جنگ عظیم دوئم میں برطانوی انٹیلیجنس کی برانچ، ایم آئی 14 (ڈی)، نے ‘خفیہ کبوتر سروس’ کا آغاز کیا۔ اس کے تحت مقبوضہ یورپ کی فضاؤں میں ایک کنٹینر میں بند کبوتروں کو پیراشوٹ کی مدد سے چھوڑا جاتا اور ان کے ساتھ ایک سوالنامہ بھی بندھا ہوتا تھا۔ ایک ہزار سے زائد کبوتر جوابات کے پیغام لیے واپس آئے۔ ایک پیغام میں جرمن ریڈار سٹیشن اور وی ون راکٹ کے منصوبے کی تفصیلات بھی موجود تھیں۔

لیوپولڈ ونڈکٹیو نامی مزاحمتی گروپ کے ایک پیغام میں 12 صفحات کی انٹلیجنس رپورٹ تھی جو براہ راست چرچل کو بھیجی گئی۔

جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی مشترکہ انٹیلیجنس کمیٹی کے تحت بنائی گئی ‘پیجن سب کمیٹی’ نے سرد جنگ میں کبوتروں کے استعمال کے آپشن کا جائزہ لیا۔ مگر بعد ازاں برطانیہ نے اس نوعیت کے آپریشنز بند کر دیے۔ مگر یہ وہ وقت تھا جب سی آئی نے کبوتروں کی طاقت کو انٹیلیجنس مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

سی آئی اے کا آپریشن ٹکانا 60 کی دہائی میں کیے گئے کام کا نچوڑ تھا۔

منظر عام پر لائی گئی سی آئی اے فائلز سے پتا چلتا ہے کہ ایجنسی نے ایک پہاڑی کوے کو ناقابل رسائی عمارتوں سے 40 گرام تک وزنی اشیا لانے اور لے جانے کی ٹرینگ دی گئی۔

سرخ لیزر لائٹ کو ٹارگٹ پر مارا جاتا جہاں موجود ایک مخصوص لیمپ پرندے کی رہنمائی کرتا۔

یورپ میں سی آئی نے ایک عمارت کی کھڑکی کے ذریعے کوے کو استعمال کرتے ہوئے ایک جاسوسی آلہ پھینکا تاکہ اندر ہونے والی بات چیت کو سنا جا سکے۔ تاہم ٹارگٹ سے کوئی آواز موصول نہیں ہوئی۔

سی آئی اے نے اس آپشن کا جائزہ بھی لیا کہ ہجرت کرنے والوں پرندوں کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کا پتا لگایا جائے کہ آیا سوویت یونین نے کیمیائی ہتھیاروں کا کوئی تجربہ تو نہیں کیا۔ یہ بھی پتا لگا کہ کتوں کو دور بیٹھ کر برقی دماغی لہروں کے ذریعے رہنمائی کرنے کے ٹرائل بھی کیے گئے تھے۔ مگر اس حوالے سے زیادہ تر معلومات کو ابھی منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔

آکوسٹک کٹی نامی آپریشن کے تحت ایک بلی کے اندر سماعت کے لیے جاسوسی کے آلات بھی لگائے گئے۔

فائلز کے مطابق سنہ ساٹھ کی دہائی میں ڈولفن مچھلیوں کو جاسوسی کے لیے استعمال کرنے کا جائزہ لیا گیا۔ تاہم اس میں بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ڈولفنز کی ٹریننگ کرنے والے ٹرینر سے ڈولفن کا کنٹرول فیلڈ ایجنٹ کو کیسے دیا جائے۔

ویسٹ فلوریڈا میں سی آئی اے کی ایک ٹیم نے ڈولفنز کو دشمن کی کشتیوں پر زیر آب حملوں کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔

اس حوالے سے ٹیسٹ بھی کیے گئے کہ آیا ڈولفن کے ساتھ سینسر لگا کر سوویت جوہری آبدوزوں کی آوازوں اور تابکاری اور بیالوجیکل ہتھیاروں کی موجودگی کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔

اس بات کا جائزہ بھی لیا گیا کہ آیا ڈولفن چلتے ہوئے بحری جہازوں سے پیکجز لا اور لے جا سکتی ہیں یا نہیں۔

ڈولفن

حالیہ زمانے میں امریکی بحریہ نے ڈولفن کا استعمال بارودی سرنگیں ہٹانے میں استعمال کیا ہے

سنہ 1967 میں سی آئی اے اپنے تین پروگرام، اوکسی گیس (جو ڈولفنز کی ٹرینگ سے متعلق تھا)، ایگسیولائٹ (پرندوں سے متعلق) اور کیچل (کتوں اور بلیوں سے متعلق)، پر چھ لاکھ ڈالر سے زائد رقم خرچ کر چکی تھی۔

ان پروگرام کی کچھ تفصیلات مزاحیہ بھی ہیں۔ سی آئی اے کی منظر عام پر لائی گئی ایک فائل میں کینیڈین عقاب اور مخصوص نسل کے کلغی دار طوطے کو ٹرینگ دینے کا ذکر بھی ہے۔

اس فائل کے مصنف نے لکھا ہے کہ ’ہمیں یہ بالکل نہیں معلوم تھا کہ پرندے کو استعمال کر کے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘

کبوتروں کا استعمال سب سے کارگر ثابت ہوا۔ 70 کی دہائی کے وسط میں سی آئی اے نے اس حوالے سے کئی آزمائشی مشن کیے۔ ایک مشن جیل پر اور دوسرا واشنگٹن ڈی سی میں نیوی یارڈز کے اوپر کیا گیا۔

کبوتروں پر نصب کیمرے کی قیمت دو ہزار ڈالر اور ان کا وزن محض 35 گرام تک تھا جبکہ انھیں باندھنے کے لیے ساز یا زین پانچ گرام وزنی تھا۔ تجربوں کے دوران پتا چلا کہ کیمرے میں لگی فلم کی 140 تصاویر میں سے نصف اچھی کوالٹی کی تھیں۔ ان تصاویر میں واضح طور پر نیوی یارڈ پر چلتے ہوئے افراد اور کھڑی گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔

حاصل کیا ہوا؟

ماہرین کا کہنا تھا کہ کبوتروں کے ذریعے لی گئی تصاویر اس زمانے میں تعینات جاسوس سیٹلائٹ کے ذریعے لی جانے والی تصاویر سے بہتر تھیں۔

تجربوں کے دوران ایک خدشہ یہ پیدا ہوا کہ اگر کوئی شخص ’کبوتر اور کیمرے‘ کو دیکھ لیتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ حکومت خود اپنے لوگوں کے خلاف جاسوسی کر رہی ہے تو اس کے لیے ایک کہانی تراشی گئی۔

ان مشن کا مقصد یہ تھا کہ کبوتروں کو ترجیحی بنیادوں پر سویت یونین کے اندر ان کے انٹیلیجنس کے مراکز پر استعمال کیا جائے۔

ڈی کلاسیفائی کی جانے والی فائلز سے پتا چلتا ہے کہ ان پرندوں کو خفیہ طور پر ماسکو لے جایا جانا تھا۔ سی آئی اے نے ان کو چھوڑے جانے کے بہت سے ممکنہ طریقوں پر غور کیا جن میں موٹے اورکوٹ کے اندر سے انھیں چھوڑنا یا کسی کھڑی ہوئی کار کے فرش میں کسی سوراخ سے اندر داخل کرنا وغیرہ شامل تھا۔

ان لوگوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ آیا کبوتر کو 50 میل فی گھنٹے کی رفتار سے چلتی ہوئی کار کے شیشے سے بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔ کسی کبوتر کو کسی ہدف سے کئی میل کے فاصلے پر چھوڑا جائے گا اور وہ ہدف تک اڑتا ہوا جائے گا اور پھر وہاں سے وہ اس جگہ لوٹ کر آئے گا جسے تربیت کے دوران اسے یہ باور کرایا گیا ہے کہ یہ اس کا گھر ہے۔

ستمبر 1976 کے ایک میمو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لینن گراد کے ایک شپ یارڈ کو ہدف کے طور پر منتخب کیا گیا تھا جہاں سویت کی انتہائی جدید آبدوز بنائی جاتی تھیں۔

اس وقت یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ آپریشن ممکن ہے۔ لیکن تجسس کے اسی مقام پر صیغۂ راز سے باہر آنے والی فائلز ختم ہو جاتی ہے۔

صحیح معنوں میں جاسوس کبوتروں نے کتنی پروازیں بھریں اور انھوں نے کتنی انٹیلیجنس کی معلومات اکٹھا کیں یہ بات بظاہر ابھی تک صیغۂ راز میں ہے اور ان سے پردہ نہیں اٹھایا گيا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp