شہزادے کی موت


شہزادے کی اس موت کی اطلاع مجھے اخبار سے ملی۔

ورنہ شاید میں اس سے بے خبر رہتا۔

بہت دن سے اس طرف سے گزرنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اس لیے میں نہیں دیکھ سکا کہ شہزادے کی لاش سڑک کے ساتھ ڈھیر پڑی ہے، اس کا ملبہ اور اینٹ گارا اٹھایا جارہا ہے۔ ایک زمانے میں ادھر سے روز گزر ہوتا تھا۔ ایک کے بعد ایک درس گاہ کا راستہ اس جگہ سے گزرتا تھا۔ عین اس کے سامنے۔ جن جگہوں سے روز گزرنا طے ہو اور پھر ایک عرصے کے بعد گزریں تو مانوس مناظر میں تبدیلی کے آثار بہت عجیب لگتے ہیں۔ آخری دنوں میں وہ چپ چاپ نظر آتا، اپنی جگہ کھڑا ہوا اور ہمیں ایک اطمینان سا تھا کہ یہ موجود ہے۔

اب وہ عمارت بھی ڈھا دی گئی ہے۔ پرنس سینما فروخت ہو گیا اور اس کی جگہ کثیر المنزلہ عمارت بننے کا اعلان ہوگیا۔ یہ نئی عمارت جب بنے گی تو اس سے بہت سارے لوگوں کا تعلق جُڑے گا۔ مگر مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے شہزادے کی زندگی تمام ہوگئی۔

لوگ کہیں گے عمارت کا کیا غم، کچھ خانۂ دل نہیں کہ پھر بسایا نہ جائے گا۔

میں نے اس کو بنتے ہوئے دیکھا تھا، اس لیے مجھے زیادہ قلق ہے۔ بنتے دیکھا اب ڈھلتے دیکھ رہا ہوں۔ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ اس خالی جگہ پر بورڈ لگا اور تعمیر شروع ہوگئی۔ میں اس وقت اسکول میں تھا اور صبح کے وقت روز اس کے سامنے سے گزرنا ہوتا تھا۔ آس پاس اور بھی کئی سینما ہال تھے مگر اس کا آغاز نرالے ڈھنگ سے ہوا تھا۔ سامنے کا حصّہ بہت شان دار اور اونچا۔ سننے میں آیا کہ یہ ایشیا کی سب سے بڑی سینما اسکرین ہوگی اور یہاں فلم دیکھنے کا خاص لطف ہوگا۔ ہمارے اسکول کا ایک لڑکا جس کا نام اب مجھے آصف یاد رہ گیا ہے، اس عمارت کو دیکھ کر بلند آواز سے کہا کرتا تھا، میں اس میں پہلی فلم کا پہلا شو دیکھوں گا، یہ بن تو جائے۔ چاہتے ہم بھی یہی تھے مگر اس لڑکےکی طرح اتنی آزاد ی سے یہ اعلان نہیں کر سکتے تھے۔ پھر سینما بن گیا۔ دھوم دھام سے اس کا افتتاح ہوا۔ مگر تب تک وہ لڑکا کہیں اور جاچکا تھا۔ میں اب بھی یاد کرتا ہوں کہ اس نے پہلی فلم کا پہلا شو دیکھا کہ نہیں۔ وہ تو چلا گیا مگر میرے ذہن میں یہ سوال چھوڑ گیا۔

ایک کے بعد ایک فلمیں وہاں لگتی رہیں۔ اب کوشش کے باوجود یاد نہیں آتا کہ پہلی فلم وہاں کون سی دیکھی تھی۔ لیکن اس سینما کا رعب داب، شان شوکت یاد ہے۔ ایسا لگتا تھا وہاں فلم دیکھنا خاص بات ہے۔ یہ سینما بھی میرے لڑکپن کا دوست ہے۔ ہم نے بہت وقت ساتھ گزارا ہے اور خوب فلمیں ساتھ بیٹھ کر دیکھی ہیں۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ وہ بیتے لمحے یاد نہ آئیں؟

بیسویں صدی میں ستّر اور اسّی کی دہائی جب میں اسکول سے نکل کر کالج اور پھر میڈیکل کالج میں پرھنے لگا، اور باتوں کے علاوہ کراچی میں سینمائوں کا بڑا یادگار زمانہ تھا۔ اس علاقے میں خصوصیت کے ساتھ سینما ہال تھے جو معیاری فلمیں پڑے اہتمام سے چلایا کرتے تھے۔ تسبیح کے دانوں کی طرح میں ان کو گن سکتا ہوں۔

صدر کی طرف سے آیئے تو سگنل سے پہلے لیرک اور بمبینو کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے ہیں۔ بمبینو کا نام سرخ روشنی سے اس طرح جگمگا رہا ہے کہ ’’بی‘‘ کے جسم میں ایک لڑکی ناچ رہی ہے۔ اس کے ساتھ اسکالا بھی تھا جس کا اسکرین چھوٹا تھا مگر فلمیں اچھی آتی تھیں۔ وہ بہت پہلے بند ہوگیا۔ بمبینو والے سگنل کے بعد بندر روڈ پر الٹے ہاتھ کی طرف چلے جائیں تو ناز اور نشاط آمنے سامنے۔ ان میں ہالی ووڈ کی فلمیں کم لگتی تھیں مگر نشاط میں بعض پرانی فلمیں دوبارہ دکھائی گئیں جس میں ’’بین حر‘‘ مجھے الگ سے یاد ہے۔

یہاں سے پلٹ کر واپس آجایئے تو پرنس کے آگے کیپری جہاں میرے والدین اور خالہ خالو ہم بچّوں کو بہت سی فلمیں دکھانے لے جاتے۔ لیکن یہ تو سلسلہ یہاں ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے پہلے صدر میں بھی کئی سینما ہیں۔ میوزیکل فائونٹین کے سامنے ریکس، جو بعد میں آڈیٹوریم بن گیا اور پھر شاپنگ مال۔ دوسری طرف گوڈین۔ پھر میٹروپول کے بغل میں پیلس۔ ان دنوں آج کل جیسی فراوائی تو تھی نہیں مگر بعض مرتبہ بڑے اعلیٰ درجے کی نفیس فلمیں بھی آجاتی تھیں جو ہالی وڈ کے مقبول عام چلتے ہوئے مسالےدار مال سے الگ تھلگ نظر آتی تھیں۔ پیلس سینما میں میافارو جیسی اداکارہ کی فلم چائنا ٹائون یاد آرہی ہے۔ یہ فلم میں نے اپنے ہم جماعت میلون لوبو کے ساتھ دیکھی تھی۔ پیلس میں فلم دیکھنے کے بعد ہم میٹروپول کے چینی ریستوران میں سوپ پینے جاتے تھے کہ جب ہم میں سے کسی کی سالگرہ ہوتی اور اس موقع پر ’’ٹریٹ‘‘ کا مطالبہ ہوتا۔

ریکس سینما میں کامران کے ساتھ باربرا اسٹرائسنڈ اور رابرٹ ریڈ فورڈ کی فلم The way we were دیکھنا یاد ہے اور فلم کے بعد کامران کا ارادہ کہ اس کہانی پر کراچی کے پس منظر میں وہ فلم بناتے تو کہانی میں پیچ و خم کیسے آتے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت بھی کامران کی فلم کے مرکزی کردار سیاسی ایکٹی وسٹ تھے۔

مجھے کیپیٹل بھی یاد ہے جس کے نام پر اب بھی کیپیٹل والی گلی کہلاتی ہے اور پیراڈائز جس کی جگہ ہوٹل بن چکا ہے۔ ہاں، ان سب سے الگ ڈرائیو ان کو کیسے بھول سکتا ہوں؟

اور پھر پرنس سنیما گرا دیا گیا

قلو پطرہ اور سیمسن ڈیلائیلا جیسی تاریخی پس منظر والی فلمیں میرے والد بڑے اہتمام سے دکھانے لےجاتے۔ آزادانہ اور کسی قدر باغیانہ طور پر خود فلمیں دیکھنے کا آغاز کیا تو ڈاکٹر ژواگو نہ جانے کتنی بار دیکھی۔ یہ فلم جب بھی ریلیز ہوتی اور سینما ہال جو بھی ہوتا، میں اسے دیکھنے پہنچ جاتا اور بار بار دیکھنے پر بھی نہ تھکتا۔ نہ جانے اور کتنی فلمیں ہیں جو میری یادوں میں مسلسل چل رہی ہیں، پردہ ابھی نہیں گرا اور اسکرین پر آخری شو جاری ہے۔

ان تمام سینمائوں پر بڑے بڑے سائز کے بل بورڈز نصب ہوتے تھے جس میں جلی حروف میں فلم کی اہم تر تفصیلات اور ایسے مناظر کی تصویر کشی ہوتی تھی جو فلم بینوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔ وہاں سے آتے جاتے ان بل بورڈز کو دیکھنا بھی ایک دل پسند مشغلہ تھا۔ مجھے یاد ہے نو اور دس محرّم کو ان بل بورڈز پر سیاہ رنگ کا کپڑا ڈال کر ان کو ڈھک لیا جاتا تھا۔ پھر عید میلاد النبی کے دن بھی ان بل بورڈز کی پردہ پوشی ہونے لگی جو اس وقت بھی میری سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ لیکن یہ پردہ پوشی کافی ثابت نہیں ہوئی۔ یہ سینما توڑ پھوڑ اور تباہ کاری پر مسائل ہجوم کے لیے بہت آسان نشانہ ثابت ہوئے۔

سینمائوں کا جلایا جانا ان کی طویل بندش کا بہانہ بن گیا۔ اس دوران کراچی میں سینما کے کلچر میں نمایاں تبدیلی آگئی۔ یہاں سے دور نئے انداز کے نیو پلیکس تھیٹر بن گئے اور عوام کا ذوق اس طرف مُنتقل ہوگیا۔ پرانے سینما گھروں کی جگہ شاپنگ پلازہ بننے لگے اور شاید یہی انجام باقی سینمائوں کا بھی ہوگا۔ تھوڑی دیر کی بات ہے۔

اہل ایمان کی حرارت نے نشاط سنیما جلا ڈالا

کراچی میں شہری انتظامیہ اور شہریوں میں شعور ہوتا تو اس بارے میں کچھ غور و فکر ہوتا، مناسب اقدامات کیے جاتے۔ یہ ڈھائے جانے والے سینما گھر بھی تو کراچی کے تعمیراتی ورثے کا حصّہ ہیں جس کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے تو کراچی کی ایک اور قدیم عمارت خبروں میں آ گئی۔ یہ ہے میٹروپول ہوٹل جو پہلے کبھی رنگ و نور کی محفلوں سے سجا رہتا تھا، اب ویران پڑا ہے اور آسیب زدہ کھنڈر معلوم ہوتا ہے۔ اس کو بھی گرایا جا رہا ہے۔ اس ہوٹل کا مالک کراچی کا ایک پرانا اور مشہور خاندان تھا جو بہت عرصے سے اس کو فروخت کرنا چاہ رہے تھے۔ اس خاندان کے ایک صاحب سے میری تھوڑی بہت جان پہچان ہے اور ان کو اب بھی لوگ میٹروپول ہوٹل کے حوالے سے یاد رکھتے ہیں۔

اس ہوٹل کے بارے میں چند دن پہلے سندھ حکومت کا بیان آیا کہ وہ ہوٹل کی جگہ پارک بنائیں گے جہاں بچّوں اور عمر رسیدہ شہریوں کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ حکومت کے دوسرے بیانات کی طرح یہ سب سننے میں اچھا لگتا ہے لیکن اگر دیکھا جائے کہ یہ حکومت پارک بنانے میں کتنی سنجیدہ ہے؟ بیش تر پارک زمین کے ٹکڑے پر قبضہ کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں جس کے بعد اپنی پسند کی تعمیر کرلی جائے۔ ہمارے اعلا حکام کا ماضی بھی داغ دار ہے اور ان کے ارادے بھی نیک معلوم نہیں ہوتے۔

حفاظت یا تعمیر کے بجائے انہدام اب اس شہر کی کیفیت کا نیا نام ہے۔ ناموں کی پرچیاں نکالی جا چکی ہیں اور بل ڈوزر اس  سمت روانہ ہو چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).