It is Not The End of The World


عمران خان سے مایوس ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ میرے منہ میں خاک‘ یاس پاکستان کے مستقبل کو ڈھانپ رہی ہے! تحریک انصاف کرہ ارض کا آخری کنارہ نہیں! It is Not The End of The World دس ستمبر کے کالم’’سروں کی فصل کوئی اور آ کر کاٹے گا؟‘‘پر پڑھنے والوں نے مایوسی کا شکوہ کیا۔ ہر اچھے برے‘ بڑے چھوٹے‘ کالم نگار کا اپنا حلقہ قارئین ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ نے ٹائم زون کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ کالم نگار ابھی سو رہے ہوتے ہیں کہ دنیا کے مختلف حصوں سے کمنٹ پہنچ جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی کا انگریزی روزنامہ اسلام آباد میں شام ڈھلے ملتا تھا۔

آج ایک بٹن کی کلک نیو یارک سے لے کر یروشلم تک کے اخبارات ایک ملازم کی طرح آنکھوں کے سامنے پھیلا دیتی ہے۔ یوں بھی لکھا ہوا حرف لکھنے والا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کہاں کہاں پہنچتاہے۔ عربی کے شاعر نے کہا تھا ؎ یلُوح الخط فی القرطاس دہراً و کاتبہ‘ رمیم فی التراب لکھا ہوا لفظ کاغذ پر ہمیشہ رہتاہے جب کہ لکھنے والا مٹی میں مٹی ہو جاتا ہے۔ اور فارسی شاعر نے کہا تھا ؎ نوشتہ بماند سیہ برسفید نویسندہ را نیست فردا امید نوشتہ یوں نمایاں رہتا ہے جیسے سفید پس منظر پر سیاہ روشنائی سے لکھا ہو! مگر لکھنے کو کل کا بھی نہیں معلوم! اور پنجابی کے شاعر نے کہا تھا ؎ لکھے رہسن کاغذ اُتے حرف سیاہی والے لکھنے والا عاجز بندہ ہوسی خاک حوالے۔

لکھاہوا حرف وہ بھی چَھپا ہوا۔ کہاں تک جاتا ہے اس کا اندازہ ایک مشاعرے میں ہوا۔ یہ کئی برس پہلے کی بات ہے۔ ملتان کے ایک نواحی قصبے میں ایک دوست کے اصرار پر مشاعرہ اٹینڈ کرنے چلا گیا۔ مقامی لہجے میں پڑھی گئی شاعری غالب تھی۔ باری آئی تو بے دلی سے تین چار اشعار سنا کر‘ مائک کے آگے سے ہٹنے ہی والا تھا کہ سامنے‘ حاضرین میں سے‘ ایک شخص ‘ جس نے دھجی نما رومال سر پر لپیٹا ہوا تھا‘ بلند آواز میں بولا وہ غزل سنا دیجیے ع فقط عشاق کے جسموں کے پنجر دیدنی ہیں اشارہ اس غزل کی طرف تھا وصال و ہجر کے سب مرحلے ناگفتنی ہیں فقط عشاق کے جسموں کے پنجر دیدنی ہیں سفر انہونیوں کا ہے ہمارے ساتھ مت آ ہمیں جانے دے ہم تو یوں بھی قسمت کے دھنی ہیں اپاہج کھیتیاں ہیں جن پہ خوشے ہیں نہ پتے زمیں !

اس بار تونے بیٹیاں کیسی جنی ہیں سنہری طشت میں سر‘ اور سر پر تاج زریں منقش چھت ہے‘ دیواروں پہ تعزیریں بنی ہیں مشاعرے کے بعد وہ شخص ملا۔ تہمد پوش!بوسیدہ سی قمیض! پوچھا اے دنیا کے عجیب و غریب باشندے! تو کون ہے اور یہ اشعار کیسے یاد ہیں؟ وہ ایک بے حد چھوٹے گائوں میں پرائمری سکول کا استاد تھا۔ کہنے لگا آپ کی چاروں کتابیں میرے پاس ہیں! نہیں! ہرگزنہیں! عمران خان سے مایوسی کا یہ مطلب کہاں نکلتاہے کہ پاکستان کا مستقبل تیرہ و تار ہے؟ اس مملکت نے رہنا ہے! برصغیر کے مسلمانوں کے ترکش میں پاکستان آخری تیر ہے!

یہ پاکستان ہے جس نے کالی دیوی کو روک رکھا ہے وگرنہ بھارتی توسیع پسندی کے سامنے‘ مودی کوتمغے دینے والوں کی کیا بساط تھی! ایک ہی ریلے میں بہہ جاتے! یہ تو پاکستان اور پاکستان کی مسلح افواج ہیں جو حدِ فاصل بنی ہوئی ہیں! نیپال اور سری لنکا حسرت کرتے ہیں کہ کاش ان کے اور بھارت کے درمیان کوئی پاکستان ہوتا! تحریک انصاف کی حکومت اپنے دعوے اوروعدے پورے نہ کر سکی! صحبت تمام ہوئی مگر خدا کے بندو! یار تو زندہ ہے ! پاکستان تو سلامت ہے! عمران خان اپنا رول ادا کر چکے! ان کا کام قدرت نے شاید یہی رکھا تھا کہ چوروں اور ڈاکوئوں کو برہنہ کریں۔

آج قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ دونوں حکمران خاندان کیسے کھرب پتی ہوئے۔ مریم صفدر‘ حسین اور حسن نواز کے بچے اربوں کے مالک کیسے ہوئے؟عمران خان کا یہی کردار تھا کہ جو تاریخ نے انہیں سونپا۔ ایک سال کے تجربوں نے سکھا دیا کہ عمران خان سے بڑا لیڈر درکار ہے! اس قوم کو درست ٹریک پر لانا عمران خان کے ذہنی ظرف کے بس میں نہیں! یا وہ تھک کر ہار بیٹھے ۔ یا اتحادیوں کی بلیک میلنگ کے ہاتھوں یرغمال ہیں! یا ان ضعیف الاعتقاد قوتوں نے انہیں باندھ رکھا ہے جنہوں نے ان کا سر کبھی ایک چوکھٹ پر جھکایا کبھی دوسری پر بوسہ زن کیا! کیا عجب بزدار کا معمہ جو حل نہیں ہو رہا‘ اسی ضعیف الاعتقادی کا شاخسانہ ہو!

روزنامہ 92 نیوز کی تازہ ترین رپورٹ چشم کشا ہے اور ہولناک ‘ دہشت انگیز۔ حیران کن اور صدمے سے دوچار کرنے والی۔ ’’پنجاب کے دو اہم بڑے دفاتر میں تیرہ ایسے افراد کام کر رہے ہیں جو رکن اسمبلی ہیں اور نہ ہی ان کو کوئی اعزازی عہدہ دیا گیا ہے مگر بااثر شخصیات کے قریب ترین ہونے کی وجہ سے وہ ان دفاتر میں بیٹھ کر نہ صرف اہم ترین سرکاری میٹنگز کے معاملات کو دیکھتے ہیں بلکہ کئی سرکاری اداروں میں تعیناتیاں اور سرکاری لیٹر پیڈز تک استعمال کرتے ہیں۔‘‘ یہ اس طویل وحشت اثر رپورٹ کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے! یہی شکایت تو شہباز شریف اور نواز شریف سے تھی کہ حمزہ شہباز پنجاب پر اور صاحبزادی وفاق پر کس حساب سے حکمرانی کر رہی تھیں؟ حمزہ اور مریم سے کون سی دشمنی تھی؟ اور عمران خان سے کون سی عزیزداری ہے کہ وہ جرم دوسرے کریں تو ہم گریباں گیر ہوں اور عمران خان کے عہد میں وہی جرم ہو تو خاموش رہیں؟ کیوں خاموش رہیں؟

اَم لَکُم ایمان علینا بالغتہ الیٰ یوم القیامہ؟؟کیا تمہارے لئے ہم نے قسمیں کھا لی ہیں جو قیامت تک چلی جائیں گی؟ کسی ہیلی کاپٹر یا جہاز پر بیٹھنے کی حسرت ہے نہ کسی منصب کی! بڑے بڑے عظیم الشان اداروں کی رکنیتیں پہن پہن کر بوسیدہ کر دیں! تین چوتھائی دنیا دیکھ لی اور کئی بار دیکھی! طارق نعیم دوست جیسا بھی ہے‘ شاعر کمال کا ہے ؎ یوں ہی تو کنج قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں خسروی‘ شاہ جہانی میری دیکھی ہوئی ہے سیاہ کو سفید کبھی نہیں کہیں گے۔ سفید ہی سفید کہلائے گا۔ جہاں تحسین کرنی ہو گی‘ کریں گے۔ نواز شریف نے اسلام آباد میں میٹرو چلائی تو تعریف کی اور نشاندہی بھی کی کہ یہ طویل المیعاد چلنے والی سہولت نہیں!

اصل حل زیر زمین ریلوے ہے! یہی ہوا! میٹرو تنزل پذیر ہے اور تنزل روز افزوں ہے! کس کو پتہ تھا کہ جب اندھیرے ہر چہار طرف غالب تھے تو ایک محمد علی جناح اٹھے گا! ایک شخص جس نے کانگرس اور سفید سامراج دونوں کو ایک ہاتھ سے زمین پر پٹخا! افیون کھانے والے متلون مزاج ہمایوں کو قدرت نے اتارا اورپانچ سال کی لیز Leaseچاق و چوبند شیر شاہ سوری کو عطا کی! پانچ سال میں اس نے وہ کام کیے جو آج پونے پانچ سو سال بعد بھی خلق کو نفع پہنچا رہے ہیں۔ ساٹھ کا بھی نہیں ہوا تھا کہ لیز کا عرصہ پورا کرکے پیدا کرنے والے کے حضور حاضر ہو گیا! قدرت کے خزانے بے کنار ہیں!

جو شیر شاہ سوری اور محمد علی جناح دے سکتا ہے‘ جو ملائشیا کو مہاتیر ‘ سنگا پور کو لی‘ برطانیہ کو چرچل اور فرانس کو ڈیگال دے سکتا ہے‘ جس نے ہمیں عمران خان دیا‘ وہ عمران خان سے بہتر ‘ عمران خان سے بڑا لیڈر بھی دے سکتا ہے۔مایوسی کی کوئی بات نہیں! ع ابھی اُترا نہیں ہے آخری عاشق زمیں پر! ابر اٹھے گا! موسلا دھار بارش ہو گی۔ مردہ کھیتوں کی رگوں میں نئی زندگی کا خون دوڑے گا۔ زمین ہری باغات کا لباس اوڑھے گی! یہی ملک ہو گا اور یہی اس کے باشندے جو ایک نئی صبح دیکھیں گے!!

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).