افغان سرکار اور افغان طالبان کے نام!


افغان حکومت اور افغان طالبان دونوں افغان سرزمین کے دوجینوئن اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ ہم ان دونوں میں سے ہرایک کو بیک وقت مدعی بھی کہہ سکتے ہیں اور مدعا علیہ بھی۔ رہ گئے امریکہ، بھارت، سعودی عرب، پاکستان، ایران، روس اور چین وغیرہ یہ سب اس ملک کے امن اور خوشحالی کے نام پر اپنے اپنے امن اور اپنی اپنی خوشحالی کے متلاشی ہیں۔ مثلاًامریکہ کوہروقت ایک ایسے افغانستان کی ضرورت ہے جہاں شورش زیادہ اور امن وامان کم یا بالکل نہ ہونے کے برابرہو، یوں اس صورت میں یہ طاقتور استعماراپنے لئے کبھی تو بلا واسطہ جبکہ کبھی بالواسطہ مداخلت کا جوازڈھونڈنکالتاہے۔

اسی حساب سے ہمسایہ ملک بھارت کو لے لیں۔ کیا ہم نے کبھی غورکیاہے کہ اس گنجان آباد ملک کی ہندی سرکار کو کیاپڑی ہے جواپنے ملک میں کشمیریوں کو توکچل رہی ہو لیکن اٹھارہ سوکلومیٹرزکی دوری پر واقع افغانستان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھارہی ہوں؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ سرکار بھی اپنے دیرینہ حریف پاکستان کو سبق سکھانے کے لئے افغانوں پر ایک محدود وقت کے لئے مہربان رہے گی۔ جب بھی اس کی یہ کمزوری ختم ہوگی، یہ اپنی آنکھیں بدل سکتی ہیں۔

پاکستان کو لے لیں جو افغانستان کا کئی حوالوں سے قریبی ہمسایہ ملک ہے۔ کیا مذہب کے شناختی کارڈ اپنے پاس رکھنے والے اس ملک کے حقیقی حاکم افغان طالبان کے دوست ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد یہ دوستی کہاں گئی جب یہاں کے فوجی حکمران امریکی صدر کی ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر کیوں ہوئے تھے؟ اس وقت یہ دوستی کیوں خوابیدہ رہی جب یہاں کے ہوائی اڈوں سے طالبان حکومت گرانے کے لئے پچاس ہزارسے زائد جنگی طیاروں نے اڑانیں بھریں؟

یہ کیسی دوستی تھی کہ سترسال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسلام آبادسے طالبان سفیر کوٹھڈے اورمُکے مارمار کر برہنہ حالت میں امریکی افواج کے حوالے کردیاگیا؟ سعودی عرب جس زمانے میں افغانوں کے ملک میں دخیل تھا تواسلام نہیں بلکہ امریکی مفادات اس کی اولین ترجیح تھی۔ آج اگریہ اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی فکر میں ہے تو سمجھیے کہ ایران کے خلاف سازش اور امریکہ واسرائیل کی نوازش اس ملک کا ہدف ہوگا۔ روس اور ایران اگر یہاں پر اپنااپنا سکہ جمانے کی فکر میں ہیں تویہ بھی افغانوں کے نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات (داعش جیسی تنظیموں کو کاونٹر کرنا ) کے دوست ہیں۔

چینیوں کا اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے کا مطلب بھی ہرگزیہ نہیں کہ ان کو افغان مسلمانوں سے پیار ہے بلکہ اپنے مادی مفادات کے یہ پرستار بھی اپنے مستقبل کے خدشات اور اوہام کوزائل کرنے کی فکر ہیں۔ مدعا میرا یہ ہے کہ اس وطن کے حقیقی مالک وہی ہیں جو اس مٹی کی اولاد ہے اورجن کے نام کے ساتھ افغان کا لاحقہ یا سابقہ لگتاہے۔ پشتون، ہزارہ، ازبک، تاجک اور قزلباش خواہ جس بھی رنگ، نسل اورزبان کے لوگوں کا جینا مرنا افغان سرزمین سے جڑاہواہے وہی اس ملک کے وارث اور والی ہیں۔

سردست اس جنگ زدہ ملک میں افغان طالبان اور افغان حکومت کی صورت میں دو بڑے اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہیں اور خدانخواستہ اگر معاملہ جوں کا توں رہاتو یہ خطہ ماضی سے کہیں زیادہ بھیانک جنگ کا میدان بن سکتاہے۔ افغان طالبان کو اٹھارہ سال کی طویل مزاحمت کے دوران امریکہ کی دشمنی کابھی تجربہ ہواوراب پیک مذاکرات کی شکل میں اس کی عیارانہ دوستی کابھی۔ اسی طرح سابق افغان صدر حامد کرزئی اور موجودہ صدر اشرف غنی احمدزئی نے بھی دیکھ لیا کہ امریکہ ان کا کتنا دوست اور کتنا دشمن ہے؟

حامد کرزئی تو برسوں پہلے اعلان کرچکے کہ امریکہ قطعاً افغان دوست نہیں بلکہ اس کے انخلا ہی میں افغانوں کی عافیت ہے۔ حالیہ مذاکراتی عمل سے افغان حکومت کو آؤٹ اور طالبان کو آن بورڈ کرکے صدراشرف غنی کوبڑا اندازہ ہوچکاہوگا کہ امریکہ کے عزائم کیاہیں؟ افغان طالبان سے میری گزارش ہے کہ وہ اسلام، انسانیت اور افغانیت کے وسیع تر مفاد میں بین الافغان مذاکرات ہی کو نجات کا ذریعہ سمجھ کرکے اپنے گھر میں اپنے بھائیوں سے بات چیت کو مطمح نظر بنالیں۔

میرا یقین ہے کہ اگر وہ پورے خلوص کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کاحصہ بن گئے تو دنیا اسے فاتح اور امریکہ اوراس کے دوسرے آلہ کاروں کو مفتوح قرار دے گی۔ طالبان اگر حقیقی اسلام کی ترجمانی کرنا چاہتے ہیں تو وہ صلح حدیبیہ کا مطالعہ کریں کہ کس طرح پیغمبراسلام ﷺ نے مشرکین مکہ جیسے ازلی دشمن کے ساتھ بھی دین اور مسلمانوں کے مفاد میں سمجھوتہ کیاتھا۔ یاد رہے کہ یکم ذی القعدہ چھ ہجری کو رسالت مآب ﷺ کی قیادت میں لگ بھگ چودہ سو اصحابہ کرامؓ عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔

ذوالحلیفہ کے مقام پر باقاعدہ احرام باندھے۔ غدیر پہنچتے ہی ان کواطلاع ملی کہ مشرکین مکہ نہ صرف ان کا راستہ روکنے کی تیاری کررہے ہیں بلکہ انہوں نے مقدمۃ الجیش کے طور پر ایک فوجی دستہ بھی روانہ کردیا ہے۔ حدیبیہ کے مقام پر جب مسلمانوں کی یہ جماعت ٹھہری توآپ ﷺ نے خراش بن امیہ خزاعیؓ کو اہل مکہ سے مذاکرات کے لئے بھیجاکہ مسلمان جنگ کے لیے نہیں بلکہ عمرہ کرنے کی نیت سے آرہے ہیں۔ مکہ پہنچ کر خراش کے ساتھ مکہ والوں نے یہ سلوک کیا کہ ان کی اونٹنی کو تہہ تیغ اور اسے جاں سے مارنے پرتل گئے۔

خزاعی نے مشکل سے جان بچائی اور واپس لوٹ آئے۔ اگلے مرحلے میں آپﷺ نے حضرت عثمان بن عفان کو مکہ والوں کے پاس بھیجالیکن اس کے باوجود بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مشرکین جب بیعت رضوان کے نام سے مسلمانوں کے عزم مصمم سے آگاہ ہوئے توپھرمذاکرات کی طرف مائل ہوئے۔ اس دوران کفار مکہ نے کئی مذاکرات کار مسلمانوں کی طرف بھیجے اور آخر میں سہیل بن عمروکو اپنا نمائندہ بناکربھیجا۔ مذاکرات جب کامیاب ہوئے اور صلح نامہ لکھنے کی نوبت آئی تو آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بلایا۔

آپﷺ نے حضرت علیؓ کوفرمایا کہ پہلے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ لکھو۔ یہ سنتے ہی سہیل بن عمرو نے اعتراض داغہ کہ رحمن اور رحیم کے الفاظ توہمارے ہاں مستعمل نہیں ہیں بلکہ ”باسمک اللہم“ لکھو۔ رسول پاک ﷺ نے علیؓ کو حکم دیا کہ ایسا ہی لکھو۔ پھر اگلا فقرہ آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے یہ لکھوانا چاہا کہ ”ھٰذا ماقاضی علیہ محمدرسول اللہ“ (یعنی یہ وہ معاہدہ ہے جس پر اللہ کے رسول ﷺ نے فیصلہ کیاہے )۔ سہیل نے اس پر بھی اعتراض اٹھایا اور کہا کہ ہم اگر آپ ﷺ کو اللہ کا رسول مانتے تو پھر ہمارے اور آپ کے درمیان جھگڑا کس بات کاتھا؟ لہٰذا صرف محمد بن عبدﷲ ہی لکھنے پراکتفاء کرو۔ آپﷺ نے سہیل کے اس مطالبے کوبھی مانا اور علیؓ کوحکم دیاکہ رسول کالفظ مٹادیجیے۔ صلح نامے سے محمدکانامہ مبارک مٹاناحضرت علی ؓ پربہت شاق ہوا تو آپﷺ نے خود اپنی انگشت مبارک سے اسے مٹادیا۔ اس صلح کی شرائط یہ تھیں۔

1مسلمان اس سال واپس چلے جائیں اور اگلے سال عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ آئیں۔

2اگلے سال جب یہ عمرہ اداکرنے آئیں گے تو عام عرب مسافروں کی طرح اپنی تلواروں کو نیاموں میں رکھ کراس کی نمائش سے احتراز کریں گے اورفقط تین دن قیام کرکے واپس ہوں گے۔

3قریش میں سے اگر کوئی اپنے ولی یا آقا کی اذن کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کردیا جائے گا لیکن مسلمانوں میں سے مکہ آنے والے شخص کو واپس مسلمانوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔

4دیگر عرب قبائل کو اختیار ہوگا کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ معاہدہ میں شریک ہوناچاہیں، شریک ہوجائیں اور یہ صلح دس سال کے لئے ہوگی۔

5ابوجندل کو جب تک قریش مکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا تب تک زیر تحریر معاہدہ ہمیں ( قریش ) نامنظور ہے۔

( یاد رہے کہ ابوجندل سہیل بن عمرو ہی کا بیٹا تھا جس نے رسک لے کر اسلام کو قبول کیاتھا۔ مکہ والوں نے اسے گرفتار کیا اور انتہائی بے رحمی سے روزانہ اس کو ٹارچر کرتے رہے۔ ابوجندل آپﷺ کی خدمت میں عین اس، موقع پرپہنچے جس وقت یہ صلح نامہ لکھاجارہاتھا۔ ابوجندل کو دیکھ کر سہیل بن عمرو نے دورانِ صلح آپﷺ سے مطالبہ کیا کہ ابوجندل کو ہرصورت میں ہمیں واپس کیاجائے گا ورنہ یہ صلح ان کو منظور نہیں ہوگی۔ ابوجندل کی گریہ وزاری اور زبوں حالی کے باوجود رسول ﷺ نے انتہائی دکھی حالت میں اسے کفار مکہ کے حوالے کیاتھا)۔

اب یہاں بنیادی سوالات یہ ہیں کہ کیا مشرکین مکہ سے صلح کرکے مسلمان کمزور ہوگئے؟ کیاصلح نامہ لکھتے وقت اپنے نام سے لفظ ”رسول“ اپنی انگلی سے مٹاکر (نعوذباللہ) محمدﷺ ہار گئے تھے؟ کیا مدینہ سے آئے ہوئے صحابہ کرام عمرہ اداکیے بغیر قربانی کے جانوروں کے ساتھ واپس ہوکر بے وقعت ہوگئے؟ کیا اگلے سال صرف تین دن کے اندراندرعمرہ ادا کرنے اور تلواریں کوچھپانے پر راضی ہونے والے اس طائفے نے اپنے دین کا نقصان کیاتھا؟

کیا نومسلم ابوجندل کو انتہائی مظلوم حالت میں دوبارہ مکہ کے ظالموں کے حوالے کرکے مسلمانوں کی یہ جماعت پسپا ہوگئی تھی؟ ان سب سوالات کے جوابات نفی اور سراسرنفی میں ہیں۔ افغانستان کے طالبان بھی اگر اس مبارک صلح نامے کوسامنے رکھ کر اپنی اَناکو قربان کرکے مسلمان اشرف غنی احمدزئی، تاجک عبداللہ عبداللہ، حنیف اتمر، حامدکرزئی اور گلبدین حکمتیاروغیرہ کے ساتھ خلوص پرمبنی اورپائیدار ڈائیلاگ کا آغاز کریں تو اس میں کیا حرج اور کون سی قباحت ہے؟

اسی طرح صدراشرف غنی حکومت اور ان کے سبھی بہی خواہوں سے بھی میری التماس ہے کہ وہ بھی اپنا دل بڑاکرکے اپنے ان افغان بھائیوں کو سسٹم کے ایک مضبوط حصے کے طور پر قبول کرکے ایک دوسرے کو اعتماد میں لے لیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کوبطور افغان اور مسلمان برداشت کریں اور کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کے تحت مشترکہ حکومت کوتشکیل کرکے افغانستان کوامن وامان اور خوشحالی کا گہوارہ بنادیں۔ وما علینا الا البلاغ المبین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).