مولانا فضل الرحمن اب آزادی مارچ لے کر اسلام آباد نہیں جائیں گے


آج کل ہر شخص ایک ہی سوال پوچھ رہا ہے کہ مولانا صاحب اسلام آباد آزادی مارچ لے کر کب جائیں گے؟ لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا آزادی مارچ کی وجہ سے روڈ بند ہوں گے ؟ جس کی پاداش میں سکول بند رہیں گے یا نہیں۔ کیا عمران خان صاحب کنٹینر پیش کریں گے؟ کیا مولنا صاحب گرفتار ہو کر پابند سلاسل ہوں گے ؟ سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی کی حکمت عملی کے مطابق علماء اکرام اور حفاظ کرام قرآن مجید پڑھتے ہوئے جب آزادی مارچ میں داخل ہوں گے تو ان پر گولیاں برسائی جائیں گی یا نہیں۔ کیا پی ٹی وی بلڈنگ پر حملہ ہوگا؟ کیا وزیر اعظم سیکٹریٹ پر دھاوا بولا جائے گا؟ کیا سِول نافرمانی کے اعلانات ہوں گے؟ الغرض کیا ایک بار پھر اسلام آباد کے رہائشوں کی زندگی مکمل طور پر مفلوج ہوگی؟

گستاخی معاف ہو تو میرے خیال میں مولانا صاحب آزادی مارچ اسلام آباد لے کر نہیں جائیں گے۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مولانا صاحب اسلام آباد کا پکا ارادہ کر چکے ہیں تو یہ بھی کوئی نئی اور اچنبھے کی بات نہیں۔

1988 میں پہلی مرتبہ مولانا صاحب ایم این اے منتخب ہوئے۔ مرکز میں بنظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی۔ لوگ اس وقت بھی سوال کرتے تھے کہ کیا ملک میں عورت کی حکمرانی کے سخت مخالف مولانا صاحب اسلام آباد جائیں گے؟ وہ اسلام آباد روانہ بھی ہوئے اور وہاں جاکر بڑے بڑوں کی ناک میں دم کیا۔ جوڑ توڑ کے بہترین کھلاڑی مولانا نے غلام اسخاق کے مقابلے میں نوابزادہ نصراللہ کا نام بطور صدارتی امیدوار پیش کیا جس کی وجہ سے اس کی جی ایچ کیو طلبی ہوئی۔

در پردہ قوتوں سے الجھنے کی وجہ سے 1990 میں مولانا صاحب الیکشن ہار گئے لیکن جے یو آئی چھ نشستوں پر کامیاب ہوئیں۔ لوگ دوبارہ یہ سوال کرنے لگے کہ کیا مولانا صاحب اسلام آباد جائیں گے؟ آئی جے آئی نے مولانا سے وزارت اغظمیٰٰ کا ووٹ مانگا تو مولانا کا اسلام آباد جانا ضروری ہوگیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں میاں صاحب کا رویہ مخاصمانہ رہا تو مولانا صاحب اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنچ بن گئے۔

1993 میں مولانا صاحب دوسری بار ایم این اے منتخب ہوئے۔ دوسری مرتبہ ملک میں بنظیر بھٹو کی حکومت بھی قائم ہوگئی۔ ایک بار پھر لوگوں نے مولانا صاحب کے اسلام آباد جانے کے بارے میں سوالات جاڑ دیے۔ وہی مولانا صاحب جو عورت کی حکمرانی کے سخت مخالف تھے، اسلام آباد میں جوڑ توڑ کے لئے روانہ ہوئے۔

میاں صاحب کے سابقہ رویوں کو بنیاد بنا کر مولانا نے اپنے پارٹی کا ووٹ کاسٹ نہیں کیا جس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا ، اور یہی وہ جرم عظیم ہے جس پر آج بھی ہر مسلم لیگی ناراض نظر آتا ہے۔ لوگ حیران و پریشان تھے کہ بی بی صاحبہ کو ووٹ بھی نہیں دیا پھر بھی حکومت وقت نے مولانا صاحب کو قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا چئیرمین مقرر کیا۔ مولانا صاحب کا تو کمال ہی یہ ہے کہ حکومتوں کا حصہ نہ بھی رہے ہو لیکن جب بھی حکمرانوں پر مشکل حالات آئیں تو وہ مشوروں کے لئے مولانا کے در پر حاضری ضرور دیتے تھے۔

مولانا صاحب 1997 میں ایک بار پھر الیکشن ہار گئے۔ لوگ سوال کرتے رہے اور وہ اسلام آباد روانہ ہوگئے اور تمام تر جوڑ تور کا حصّہ رہے۔ ایک بار تو اسے احتساب کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لئے بھی اسلام آباد بلایا گیا تھا۔

2008 میں مولانا صاحب الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ لوگ سوالوں پر سوال کرتے رہیں لیکن مولانا اسلام آباد روانہ ہوئے۔ وہ زرداری کی حکومت میں شامل ہوئے لیکن اخری مرحلے میں اپنی سیاسی بصیرت استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن میں چلے گئے۔

2013 میں مولانا صاحب ایم این اے منتخب ہوئے۔ سوالوں کی بوچھاڑ میں مولانا اسلام آباد روانہ ہوئے اور نواز شریف کی حکومت میں شامل ہوئے۔

2018 میں مولانا الیکشن ہارگئے۔ ان کے سب سے بڑے مخالف عمران خان ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ الیکشن سے پہلے ایک دوسرے پر یہودی کے اجینٹ کے فتوے تک لگاتے رہے۔ بقولِ مولانا صاحب تمام پختون لیڈروں کو اسٹیبلشمنٹ نے جعلی مینڈیٹ کے ذریعے موجود حکومت پر مسلط کیا ، ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لاء ہے۔ اس بار مولانا کو اسلام آباد جانے کی ہوا لگی تو حکومت کے قائم ایک سال بعد اکتوبر میں اسلام آباد آزادی مارچ کا اعلان کیا۔ لوگ سوال اٹھانے لگے کہ کیا مولانا اسلام آباد جائیں گے؟ کیا حکومت پریشان ہے؟ سنا جا رہا ہے کہ عمران خان صاحب کا لب و لہجہ کافی نرم ہوچکا ہے۔ دوسری طرف مولانا کہتے ہیں کہ حکومت اس وقت حالتِ نذاع میں ہے اور حالت نذاع میں کوئی توبہ قبول نہیں ہوتی۔

سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ مولانا آزادی مارچ لے کر اسلام آباد کی تیاری میں مصروف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا سیاست میں ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں ، وہ تدبر‘ حکمت اور فہم و فراست سے فیصلے کرتے ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ ہمارے بغیر حکومت بن نہیں سکتی اگر بن جائے تو چل نہیں سکتی۔ آج تمام پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ سے خوفزادہ نظر ارہی ہیں لیکن ایک واحد مولانا اکیلے نواز شریف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ مخالف کھڑے ہیں۔ مولانا پر الزامات کے سوا عدالت میں کوئی کیس نہیں۔

نیب کو بھی کوئی کرپشن کا ثبوت نہیں ملا۔ دوسری طرف ملک میں مہنگائی ہے ، خزانہ خالی ہے۔ بھارت چاند پر قدم جمانے سے دو کلومیٹر دور ہے جبکہ ہم پشاور کے بی آر ٹی میں پھنسے ہوئیں ہیں۔ پنجاب پولیس کی بدترین کارکردگی کے چرچے تو سر عام سنائی دیتے ہیں۔ کشمیر پر خارجہ پالیسی تاریخ کے بدترین موڑ پر کھڑی ہے۔

چیف اف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”ھم نے دہشت گردی کو ختم کردیا ہے۔ آب جہالت اور غربت کو شکست دینا باقی ہے۔ لوگ پھر سوال کریں گے کہ جنرل کے بیان کے ساتھ مولانا صاحب کی آزادی مارچ کا کیا لینا دینا ہے۔ مولانا آزادی مارچ کرے یا بلوچستان حکومت میں شامل ہوجائے ، اس سے جنرل صاحب کا کیا لینا دینا۔ جنرل صاحب کو تین سال کا اکسٹنشن مل گیا ہے اور ملک پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں تو مارشل لاء کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسٹبلشمنٹ ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ عمران خان خود کرے یا مولانا کو حکومت میں شامل کرے۔ بظاہر دونوں کرپشن سے پاک نظر آتے ہیں۔ مولانا کا حکومت میں شامل ہونے کا شوق پورا ہو جائے تو اس سے ملک کا کیا نقصان ہوگا؟

مولانا اس وقت اسلامی قوتوں کی اکائی ہے۔ احتجاجی تحریکیں عوام کی شمولیت سے ہی کامیاب ہوتی ہے اور ان کے پاس مدرسوں کے بچوں کی پاور ہے۔ انتظامیہ اور پولیس علماء پر ہاتھ ڈالنے سے گبھراتی ہے ، وجہ اس کے جوشیلے کارکن ہو یا ادب و احترام کا رشتہ۔

میرے خیال میں حکومت مولانا کو کسی صورت گرفتار نہیں کرے گی اور نہ ہی بزورِ طاقت آزادی مارچ کا راستہ روکے گی۔ مولانا صاحب اگر بینظر بھٹو ، نواز شریف‘ جنرل پرویز مشرف ، اور زرداری صاحب کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکتا ہے تو لوگ سوال کریں یا نہ کریں وہ عمران خان کے ساتھ بھی مل کر حکومت بنا سکتے ہیں۔ مولانا صاحب بھی اس بات پر متفق ہیں کہ سیاست میں حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ وزیراغظم صاحب بھی یوٹرن لینے والے کو عظیم سیاست دان سمجھتے ہیں۔

مولانا حکومت میں شامل ہو یا نہ ہو عمران خان کا مقصد تو ملک میں انصاف کا قیام ہے۔ غربت کا خاتمہ ہے۔ رشوت کا نظام ختم کرنا ہے۔ ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانا ہے۔ بجلی اور گیس کے زخائر بنانا ہیں۔ میرے خیال میں اس دفعہ عمران خان اپنے مشیروں سے مشوارہ نہیں کریں گے بلکہ اپنی سیاسی بصیرت کا استعمال کرتے ہوئے مولانا کو خود ملنے کا اپشن دے کر اسے حکومت میں شامل کرنے پر زور دیں گے۔ لوگ پھر سوالا ت اٹھائیں گے۔

آزادی مارچ نہ ہونے کے بارے میں سوالات ہوں گے ۔ لیکن ان کو کیا پتہ کہ نواز شریف اور مریم نواز سمیت تمام مسلم لیگی رہنماوّں کو رہائی دلانے کے لئے ان کا حکومت میں شامل ہونا ضروری ہے۔ اگر ان پر کرپشن ثابت نہ ہو جائے تو انہیں جیل میں رکھنا بھی بے مقصد ہوگا۔ عمران خان پہلے سے اپنے وزیروں و مشیروں کو مولانا سے ملاقات کا ٹاسک دے چکے ہیں۔ اس کی ایک جھلک قوم سینٹ کے الیکشن میں دیکھ چکی ہے۔

ایک ڈر مجھے کھائی جا رہا ہے کہ اگر حکومت نے مولانا کو گرفتار کرنے کی کوشش کی یا آزادی مارچ کا راستہ روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا تو حکومت ختم نہ بھی ہو جائے تو کمزور ضرور ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).