بیوی کا پانچواں سیزیرین، خاوند کی مذہبی سوچ اور لیڈی ہیلتھ وزیٹر پھوپھی


آج ہفتہ وار پرائیویٹ پریکٹس کا دن تھا!

اپنی باری پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی داخل ہوئے۔ خاتون پانچویں حمل سے تھیں۔  پچھلے چاروں بچے سیزیرین آپریشن سے پیدا ہوئے تھے، اب پانچواں سیزیرین ہونا تھا۔

پانچویں دفعہ پیٹ کاٹ کے بچہ نکالنا بہت مشکل اور خطرناک کام ہے۔  اس کی بے انتہا پیچیدگیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے خاتون کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے۔ کوئی سپیشلسٹ درجے کا ڈاکٹر بھی پانچویں دفعہ ایسے آپریشن سے کتراتا ہے کہ اس کے لئے بہت مہارت کی ضرورت ہوتی ہے  اور معمولی غلطی بھی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔

میاں بیوی سامنے بیٹھے تھے!

بنیادی باتوں کے بعد ہم نے کہا کہ بچے کے آپریشن کے ساتھ ضروری ہے کہ بچے بند کروانے کا آپریشن بھی کروا لیا جائے۔ یہ سنتے ہی وہ صاحب کرسی سے اچھلے اور بولے،

“یہ تو سراسر اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے”

“دیکھئے ایسا نہیں ہے، ہم کسی حمل کو ضائع نہیں کر رہے، کسی بچے کو ساقط نہیں کر رہے۔ یہ صرف حمل کو روکنے کی احتیاطی تدبیر ہے” ہم نے کہا

“نہیں جی، جس روح نے آنا ہے وہ تو آئے گی ہی، تو اس عمل میں رکاوٹ خدائی کام میں دخل اندازی ہے”وہ تنتنا کے بولے

“بات سنیے ، خدا نے جو یہ کائنات بنائی ہے، ان سارے سسٹمز کا کوئی طریقہ عمل ہے۔  مرد و عورت کے جماع کا نتیجہ حمل ہے۔ حمل ٹھہرنے سے پہلے اگر جماع کے عمل میں سپرم اور ایگ کو ملنے سے روک دیا جائے تو اس میں خدا کے حکم کی خلاف ورزی کیسے ہوئی؟ کیا آپ کوئی ریفرنس لا سکتے ہیں جہاں صاف صاف یہ کہا گیا ہے کہ سپرم کو ایگ سے ملنے میں رکاوٹ مت ڈالو۔ سپرم کو ایگ تک پہنچنے کے عمل میں میں کوئی مار دھاڑ نہیں ہے میرے بھائی”

ان صاحب کے پاس میری بات کا کوئی جواب نہیں تھا، لیکن وہ میں نہ مانوں کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔

“دیکھیئے ، سمندر بھی خدا نے بنایا۔ کیا آپ تیراکی جانے بغیر سمندر میں چھلانگ لگائیں گے کہ زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔  اسی طرح آگ خدا نے بنائی، کیا آپ آگ میں کودنا چاہیں گے یہ سوچتے ہوئے کہ خدا جلنے سے محفوظ رکھے گا۔  یہ معجزے ہوتے ہیں لیکن نبیوں کے ساتھ اور یا پھر خدا چاہے تو۔  پہاڑ بھی خدا نے بنائے ہیں کبھی چوٹی سے گر کے دیکھئے کیا ہوتا ہے۔  عام طور پہ خدا اپنے کاروبار میں دخل اندازی نہیں کرتا اور ہمیں عقل و شعور دے کے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ ہم زندگی میں احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اسے احسن طریقے سے نبھائیں گے” ہم نے ایک لمبی تقریر کی

ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، سو انہوں نے اب پینترا بدلا،

“ہم نے پاکستان میں رہنے والوں سے مشورہ کیا ہے اور سب نے کہا ہے کہ اس کے بعد بہت سی تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں”

“مثلاً”ہم نے پوچھا؟

“جسم پھول جاتا ہے، چکر آتے ہیں اور خاتون کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتی”

“یہ معلومات دینے والا کون تھا؟”ہم متجسس ہوۓ

“میری پھوپھی نے بہت سال پہلے یہ آپریشن کروایا تھا اس کے بعد وہ بیمار ہی رہیں۔ میری بہن لیڈی ہیلتھ وزیٹر ہے اس نے بھی مجھے سختی سے منع کیا ہے”

اب پھوپھی اور لیڈی ہیلتھ وزیٹر کی دانش کو ہم کیسے جھٹلاتے!

“کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایسے سیزیرین مشکل ہوتے ہیں، بعض دفعہ آنول رحم اور مثانے تک پہنچ جاتی ہے اور خاتون کو بچانا مشکل ہوتا ہے”ایک اور کوشش کی

“آپ اللہ کا نام لے کر کریں جی، کچھ نہیں ہوتا”انہوں نے بے اعتنائی سے کہا۔

اب کیسے بتاؤں کہ اللہ کے دیئے ہوئے علم سے ہی انہیں سمجھا رہی ہوں۔

اس ساری گفتگو میں خاتون خاموش تھیں۔  چونکہ ہم ہار ذرا مشکل سے مانتے ہیں سو اب خاتون کی طرف رخ کیا،

“دیکھو، تمہارے چار بچے پہلے ہیں، یہ پانچواں ہے۔  یہ تمہارا جسم ہے اور تمہیں اپنے جسم پہ اختیار ہے۔  تم سسرال اور شوہر کی چھوڑو۔  تکلیف تم نے سہنی ہے، زندگی اور موت کا پل تم نے پار کرنا ہے اگر تم کہو تو میں تمہارا آپریشن کر دوں؟ “

اس نے تھکی تھکی نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولی

“ہم کچھ اور تدبیر کر لیں گے”

“مگر یہ حمل بھی تو پچھلی تدبیروں کی ناکامي کی وجہ سے ہی ٹھہرا ہے نا۔ تم نے خود ہی مجھے بتایا تھا”

“جی وہ تو ہے مگر. ….”

وہ بے چارگی کی تصویر تھی!

ہم نے ایک اور کوشش کی اور تھوڑی بے رحمی سے کی،

“دیکھو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر تم دنیا سے رخصت ہو گئیں تو تمہارے صاحب تو ایک اور بیاہ رچائیں گے، یہی دیکھنے میں آیا ہے۔  فرق تمہارے بچوں کو پڑے گا جو بن ماں کی زندگی گزاریں گے۔  اس لئے تم یہ فیصلہ کرو”

اور پھر ہم نے اسے اپنی خالہ کی داستان سنائی، جو چھٹے حمل کے دوران زیادہ خون بہنے سے اللہ کو پیاری ہوئیں تھیں اور خالو نے دوسری بیوی سے پھر خدا کے فضل سے پانچ بچے پیدا کیے تھے۔

خاتون کی آنکھ میں آنسو جھلملا رہے تھے اور صاحب انتہائی خشمگیں نظروں سے ہمیں گھور رہے تھے۔

اور ہم سوچ رہے تھے کہ کاش ہم ہر دفعہ کلینک کرنے کے بعد پدرسری معاشرے کی بدصورتیاں آپ کو دکھا سکیں۔  وہ سب مرد وزن جو ہمارے ہر کالم کے بعد نتھنوں سے دھواں چھوڑتے ہیں اور قلم سے آگ اگلتے ہیں، دیکھ سکیں کہ اگر ان کے گھر میں یہ گندگی نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تعفن زدہ سوچیں اور رویے معاشرے میں وجود نہیں رکھتے۔  (ویسے مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ اپنے گھر میں جو گندگی موجود ہوتی ہے، اس کا وجود بھی “گھر کی عزت” کا حیلہ بنا کر جھٹلایا جاتا ہے۔ و ۔ مسعود)

تعلیم کی کمی اور بعض دفعہ تعلیم کی موجودگی میں شعور کی کمی، مولوی حضرات کی ماڈرن سائنس سے ناواقفیت اور عورت ذات کے احساسات اور ضروریات سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفاد کے منافی ہر چیز کو خلاف اسلام ٹھہرا دینے کا رویہ عورت کو کتنا مجبور اورمظلوم بنا دیتا ہے کاش ہم آپ کو دکھا سکیں۔

شاید آپ کو خیال آئے کہ اتنی لمبی بات بھلا کونسا ڈاکٹر مریض کے ساتھ کرتا ہے۔ ہمارے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ہمیں معمول کے طبی معاملات نمٹانے کے مرحلے سے گزرے مدت ہو چکی۔ پیشہ ورانہ مہارت کی اس سطح پر ہمارے پاس وہی کیسز پہنچتے ہیں، جہاں پیچیدگی اسپیشلسٹ ڈاکٹر سے آگے کنسلٹنٹ کی اس علمی مہارت کا تقاضا کرتی ہے جہاں معلوم اور نامعلوم کے درمیان کے دھندلکے میں راستہ نکالنا ہوتا ہے۔ ناگزیر طور پر مریضوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور ہمیں خوشی بھی ہوتی ہے کہ رنگ رنگ کے لوگوں سے کسی قدر تفصیل سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے اور ہر بات کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔

اب تک آپ کو معلوم ہو ہی چکا ہے کہ ہم بات کہننے اور سننے کے کتنے رسیا ہیں۔  لوگوں کی کہانیاں سن سن کے دکھی بھی ہوتے ہیں لیکن امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے کیونکہ جانتے ہیں کہ

زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں

مردہ لوگوں کی عادتیں باقی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).