انیس احمد کا ناول “نکا”: پاکستانی ناول نگاری میں ایک منفرد باب


ایک دفعہ کا ذکر ہے، اگرچہ یہ کسی بھی دفعہ کا ذکر نہیں ہے کہ خُداوند عزوجل کی خاکی مخلوق اناج کی مختلف قسموں جیسی تھی جس کے لیے بہت زیادہ بولنا اور سفید کاغذوں کو کالے لفظوں سے آلودہ کرنا گناہ تھا لیکن سفید کاغذوں کو کالے کرنے والے پیشہ ور گناہ گاروں کی صف میں انیس احمد بھی ہیں جو اس زمین پر ہی رہتے ہیں لیکن ان کے اس زمین پر ہونے کے نشانات مسلسل متحرک رہتے ہیں۔ وہ کبھی اوسلو میں پائے جاتے ہیں اور کبھی براستہ تھائی لینڈ پرواز کر کے روہی اور چولستان میں عربوں کا بھیس بدل کر کہانیوں کے پرندے شکار کرتے ہیں۔

انیس احمد اردو ناول نگاروں کی اُس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کی عمریں لگ بھگ اُتنی ہی ہے جتنی پاکستان کی۔ ادیبوں کی یہ نسل پاکستان کے ساتھ پلی بڑھی ہے، جوان ہوئی ہے اور اب ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ گئی ہے۔ اس نسل نے پاکستان کی تاریخ کی شاہراہ پر وہ حادثے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں جنہوں نے پاکستان کے وجود کو دو نیم کیا اور پھر ہمیشہ کے لیے نصف دائرے میں محصور کر دیا۔

یہ نصف دائرہ اب ہمارا اصفہان ہے جسے اہلِ ایران نصف جہان کہتے ہیں اور میں بھی پاکستان کو نصف جہان سمجھتا ہوں جس کے ہم نصف شہری ہیں۔ مابعدِ سقوطِ ڈھاکہ کے اس نصف جہان میں جو معاشرہ مسلسل حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا رہتا ہے وہ گنگا جمنی معاشرہ ہے جس کی بنیاد ہند مسلم تہذیب پر ہے۔ ہمیں ورثے میں چھوت چھات کی جو روایت ملی تھی اُسے ہم نے دو قومی نظریے کی تاب دے کر مشرف بہ اسلام کر لیا ہے لیکن ہمارا اسلام وہ نہیں جس کے مطابق اللہ کی نظروں میں سب انسان برابر ہیں۔ بلکہ ہمارا مذہبی معاشرہ، منوسمرتی کی ذات پات کی تقسیم پر مبنی ہے جس میں برہمن، کھشتری، ویش اور شُودر تو نہیں ہیں البتہ ہم نے اس کا شرعی ایڈیشن تیار کر لیا ہے جس میں عسکری، سول اور مذہبی حکمران، چودھری، کمّی اور مُصلی ہوتے ہیں جس کے تحت اللہ کی مخلوق کو مساوات کی عینک لگا کر دیکھنا منع ہے۔ اقبال نے شاید اس معاشرتی آنکھ کے بھینگا پن کو بھانپ لیا تھا اور کہا تھا :

شہری ہو دیہاتی ہو مسلمان ہے سادہ

مانندِ بُتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن

انسانی خون کی اس تقسیم نے جس قسم کا معاشرہ ایجاد کیا ہے، اُس کی تاریخ ہمارے ناول نگار انیس احمد نے پوری تفصیل سے رقم کی ہے۔ اور اس تاریخ کا نام ہے ” نکا “۔ میری تفہیم میں ناول کا یہ نام نکا نامہ بن کر اُبھرا ہے، جو میرے نزدیک ایک غریب قوم کا حکمران قوتوں سے نکاح نامہ ہے۔ یعنی ایک نام میں تین نام، نِکا، نِکا نامہ اور نکاح نامہ۔

نکا اس ناول کا مرکزی کردار ہے جو پاکستانی معاشرے میں تشدد، جبر، لا قانونیت اور اخلاقی بے راہروی کے رویوں کی پیداوار اور ماحصل ہے۔ یہ ایک علامت ہے جسے ملک کا مراعات یافتہ طبقہ شب و روز کے قرطاس پر ہر روز لکھتا ہے۔ نکا کی کہانی بڑی نفاست، دروں بینی اور خونِ دل میں قلم ڈبو کر لکھی گئی ہے جو صرف پاکستان کی کہانی ہی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کی کہانی ہے۔ فاضل ناول نگار نے نکا نام کا کردار تلاش کیا۔ ایسے کردار ہماری مٹّی میں جابجا مدفون ہیں جنہیں گمنامی کی قبروں سے نکال کر زبان و بیان کے جادو سے زندہ کرنا ہوتا ہے۔

انیس احمد کی کہی ہوئی یہ کہانی جس کا عنوان نکا ہے، ایک المیہ کہانی ہے۔ اس کہانی کا الم ہمارے اُس معاشرتی اژدہے کا زہر ہے جس کی بانبی میں ہم رہ رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ لفظ اور اصطلاح کے حقیقی مفہوم کے بر عکس ایک فرضی معاشرہ ہے جس کے مفروضوں میں پل کر ہم جوان ہوئے ہیں اور نعروں کی پھکی پھانکتے، مختلف نظریوں کے جھنجھنے کی جھنکاریں سُنتے نیم خوابی کی حالت میں بڑھاپے کی دہلیز پر آ کھڑے ہیں اور نہیں جانتے کہ تاریخ کے جنگل میں بھٹکے ہوئے اپنے غولِ بیابانی کی اصل نسل کون سی ہے، مگر ہم سب مذہب اور سیاسی نظریوں کے رنگ برنگے ہار اور مالائیں گلے میں ڈالے قومی برتری کی دھمال میں مست ہیں اور نہیں جانتے کہ ہم درگاہوں اور پیر خانوں کے گمراہ گدی نشینوں، نفسیاتی طور پر بیمار سیاسی وڈیروں اور کوڑھ مغز افسر شاہی کے قیدی ہیں۔

انیس احمد نے جس فنکارانہ صناعی سے شر کی ان قوتوں کا پوسٹ مارٹم کیا ہے، اُس نے اس ناول کو سماجیات کے موضوع پر ایک تحقیقی دستاویز بنا دیا ہے۔ ناول میں جابجا قرۃ العین حید رکے ناول ” آگ کا دیا “، راہل سنکرتائن کے ناول ” والگا سے گنگا تک” اور عبداللہ حسین کے “اُداس نسلیں ” کے نثری طلسم کا اعادہ نظر آتا ہے، لیکن جو بات اس ناول کو متذذکرہ بالا کتابوں سے منفرد اور نویکلا بناتی ہے، وہ اس کا لسانی اسلوب ہے۔ یہ کتاب روایتی اُردو میں نہیں، پاکستانی میں لکھی گئی ہے۔ پاکستانی جو پاکستانیوں کی مروجہ قومی زبان ہے، ریختہ اور لشکری زبان اردو سے مختلف ہے۔

ہمارے پیش رو محققوں، پرفیسروں، اور لسانی فروغ و افزائش کے اساتذہ نے جس کتابی اور لشکری زبان کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا ہے، اُس زبان سے مختلف ہے جو پاکستان کے گلی کوچوں میں عام لوگوں کی روز مرہ ہے۔ کوئی میری اس بات سے لاکھ اختلاف کرے مگر میں اپنے اس موقف پر قائم ہوں کہ معرب و مفرس کتابی اردو غیر ملکی حملہ آوروں کی زبان تھی، جسے غیر ضروری طور پر ہماری قومی زبان کا نام دیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ بہتر سال گزر جانے کے بعد بھی وہ مستند دفتری اور سرکاری زبان نہیں بن پائی۔

 اب میں اس ضمن میں دوقومی نظریے کے خالق قائد اعظم کے اُس بیان کا حوالہ دوں گا، جس میں اُنہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان اُس دن وجود میں آ گیا تھا جس دن برِ کوچک کے پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ چنانچہ ہماری قومی زبان حملہ آوروں کی نہیں مقامی زبان ہے جس میں عربی اور فارسی کے الفاظ کی بھرمار کے بجائے مقامی زبانوں یعنی پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو اور بلوچی کے الفاظ شامل کیے جانے چاہئیں جس سے قومی زبان کا خالص پاکستانی چہرا ابھر کر سامنے آئے گا۔ جیسا کہ انیس احمد کے اس ناول میں سرائیکی الفاظ کے چھڑکاؤ کے جادو سے ہوا ہے۔ چنانچہ میری صوابدید کے مطابق انیس احمد کا ناول قدیم کتابی اردو کے بجائے جدید پاکستانی میں ہے اور پاکستان کی قومی زبان پاکستانی کے سوا کیا ہو سکتی ہے ؟

قصہ کوتاہ اس ناول کا ہیرو نکا پاکستانی معاشرے کے ضمیر کا وہ سچ ہے، جو سانپ کے گلے کا چھچھوندر ہے جو نہ نگلا جائے نہ اُگلا جائے۔ انیس احمد کا یہ ناول پاکستان میں ناول نگاری کی تاریخ کا وہ سنگِ میل ہے جسے میں ایک نئے عہد کا سندیسہ سمجھتا ہوں۔ یہ ناول اوسلو میں لکھا گیا مگر اس میں روہی کے چوپائے چوکڑیاں بھرتے ہیں اور چولستان کے پرندے چہچہاتے ہیں۔ اس ناول کا ہیرو ایک ہے اور وِلن تین ہیں۔ ان تین شیطانوں میں ایک بیمار وڈیرہ گام، ایک درگاہ کا گدی نشین عظام الدین جمال زادہ اور ایک بیوروکریٹ ملک خُدا بخش ہے۔ جو تینوں مل کر اپنی اپنی جگہ اس معاشرے کے جل کو گندی مچھلیاں بن کر گندہ کرتے رہتے ہیں اور اسے اعلیٰ سماجی زندگی سمجھتے ہیں۔ ان تینوں شیطانوں کی کردار نگاری کی تفصیلات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انیس احمد پاکستان معاشرے کے کتنے مشاق نباض ہیں۔

مجھے ناول پڑھتے ہوئے محسوس ہوا کہ میں روہی کی پر اسرار فضاؤں میں سانس لے رہا ہوں۔ ہر چند کہ خواندگی کے دوران کمپوزنگ کی غلطیاں اور پروف ریڈر کی کوتاہیاں معتدد جگہوں پر مختلف ابواب میں نظر آتی ہیں مگر بھائی ساقی فاروقی کا فارمولا ہمت بندھاتا ہے کہ کاتب کی ماں کی بھین کی کرتے جاؤ اور پڑھتے جاؤ، یوں بھی انیس احمد نے برِ صغیر کے انگریزی ناول نگاروں کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ناول میں ماں یاوا کی گالی اتنی بار رقم کی ہے کہ روہی کے گلی کوچوں کی روز مرہ کا مسالہ دار ذائقہ کام و دہن میں رچ بس گیا ہے۔ ہائے غالب:

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

یہ ناول میرے لیے دعوتِ شہی تھا جس میں قسم قسم کے خوانوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا اور میں خوب سیر ہوا۔ اب انیس احمد سے پوچھنا یہ ہے کہ سائیں تیسرا ناول کب آئے گا ؟

نکا 416 صفحات پر مشتمل ہے جس کا سر ورق احمد سائیں نے بنایا ہے، جو روہی کی تہذیبی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ناول طٰہٰ پبلیکیشنز لاہور نے لاہوری معیار کے مطابق چھاپا ہے جس کی قیمت پاکستان میں 795 روپے اور بیرونِ پاکستان 10 ڈالر ہے جو 122 اے اردو بازار لاہور سے منگوائی جا سکتی ہے۔

مسعود منور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مسعود منور

(بشکریہ کاروان ناروے)

masood-munawar has 19 posts and counting.See all posts by masood-munawar