پپو بھائی انچولی والے


گزشتہ اتوار کو آٹھویں محرم تھی۔ میں نیویارک گیا تھا جہاں عشرہ محرم کا مرکزی جلوس برآمد ہوا تھا۔ یہ ہر سال عاشور سے پہلے والے اتوار کو مین ہٹن کی پارک ایونیو پر نکلتا ہے۔ چار گھنٹے جاتے ہوئے کی ڈرائیو اور چار گھنٹے کی واپسی۔ جلوس میں بھی فون پر پیغامات نہیں دیکھ سکا۔ گھر آکر دیکھا کہ کسی نے قائم بھائی کے لیے دعا کی درخواست کی تھی۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ پاکستان میں صبح کے چار بجے تھے۔ کسی کو فون نہیں کرسکتا تھا۔ الجھن میں گرفتار رہا کہ بیوی کو بتاؤں یا نہ بتاؤں۔

ایسا ہی میسج کربلا میں موجود میرے کزن تہور بھائی کو بھی پہنچا۔ اس میں مرحوم کی بلندی درجات کی بات کی گئی تھی۔ وہ ان کی بیوی نے دیکھ لیا۔ تہور بھائی، قائم بھائی اور میں، ہم تینوں ہم زلف ہیں۔ کربلا میں رونا پیٹنا مچ گیا۔ پورا قافلہ تہور بھائی کے گرد جمع ہوگیا۔ بہن کی ہچکیاں بند گئیں۔ انھوں نے فوراً پاکستان واپسی کا مطالبہ کیا۔ قافلے کے منتظم پریشان ہوگئے۔ لاکھوں لوگ کربلا آرہے تھے۔ جانے کا انتظام کرنا ممکن نہ تھا۔

قائم بھائی اور میں انچولی میں محلے دار تھے۔ شادی سے پہلے بھی ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ انچولی میں انھیں قائم کے نام سے کم لوگ جانتے ہیں۔ سب پپو بھائی کہتے ہیں۔ وہ کسی زمانے میں امروہا فٹبال کلب سے کھیلتے تھے اور نامی گرامی فل بیک تھے۔ نامی گرامی کا سابقہ صرف بدمعاش کے لیے استعمال کرنا درست ہے۔ فٹبال میں فل بیک کے لیے بدمعاشی کرنا جائز ہے۔ وہ اس سکھ فٹبالر کے پیروکار تھے جس نے کہا تھا کہ فٹبال نہ ملے تو سامنے والے کو زوردار کِک مار دو۔ پپو بھائی کو دیکھ کر اچھے اچھے اسٹرائیکر پتلی گلی سے یوٹرن لے لیتے تھے۔

پپو بھائی فل بیک تھے اس لیے کبھی کبھی بیک کِک لگاکر گول کیپر کو پاس دیتے تھے۔ کھیل اور ادب سے بیک وقت ناواقف بعض افراد اس بیک کِک کو دولتی کہتے تھے۔ نام رکھنے کے شوقین انچولی کے شرارتی لونڈوں نے اس دولتی کی رعایت سے پپو بھائی کا ایک نام رکھا جو میں نے اگر یہاں لکھا تو میری بیوی مجھے مار مار کے گدھا بنادے گی۔

کیسی سنجیدہ گفتگو کرتے کرتے میں کہاں بھٹک جاتا ہوں۔ کیا کروں، انچولی والے نہ خود سنجیدہ ہوتے ہیں، نہ کسی کو ہونے دیتے ہیں۔

اگلی صبح میں جلدی بیدار ہوا اور دفتر جانے سے پہلے ادھر ادھر فون گھمائے۔ معلوم ہوا کہ قائم بھائی آٹھ محرم کے مرکزی جلوس میں شریک تھے۔ اس جلوس کا اہتمام امروہے والے کرتے ہیں اور یہ نشتر پارک سے حسینیہ ایرانیان جاتا ہے۔ اس میں شرکت نہ کرنے پر آپ مسلمان رہ سکتے ہیں، شیعہ رہ سکتے ہیں، مومن و متقی رہ سکتے ہیں لیکن امروہے کے نہیں رہ سکتے۔ سادات امروہا والے اگلے ہی دن انجمن اور شجرے سے نکال دیتے ہیں۔

کلف والا سفید کرتا پاجامہ، آنکھوں پر دھوپ کا مہنگا چشمہ، علم پر سیروں پھول چڑھانے کی وجہ سے ہاتھوں میں گلاب کی خوشبو، ایک ہاتھ میں نیا اسمارٹ فون اور نئی سوک کی چابی، دوسرا ہاتھ سینے پر بے حرکت، ہونٹوں پر حسین حسین۔ کراچی کے سب سے خوب صورت، خوش لباس اور خوش اخلاق لوگ اس جلوس میں آتے ہیں۔

اس جلوس میں روایتی نوحہ نہیں ہوتا، ہاتھ کا ماتم نہیں ہوتا، خون کا ماتم نہیں ہوتا۔ امروہے والوں کے دشمن کہتے ہیں کہ کوئی غم بھی نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم بالصواب!

ذکر شاید قائم بھائی کا ہورہا تھا۔ وہ اس جلوس میں بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ دوستوں نے اٹھایا اور اسپتال پہنچادیا۔ جلوس میں سیکڑوں مومنین و متقین نے یہ منظر دیکھا۔ سب کے پاس فون تھے۔ فون میں واٹس ایپ تھا۔ آن کی آن میں پیغامات نشر ہوگئے۔ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ پاکستان کے طول و عرض کے علاوہ عراق اور امریکا تک بھی آنچ پہنچی۔

ابھی قائم بھائی کا جسد خاکی اسپتال نہیں پہنچا تھا کہ ان کے لیے فاتحہ خوانی اور بلندی درجات کی دعائیں کرادی گئیں۔ السید کیٹرنگ پر ساجد بھائی کا فون آیا کہ احتیاطاً دو دیگ بریانی کے لیے باسمتی چاول بھگو دو اور بچھیا کے بغیر ہڈی کے گوشت کا آرڈر دے دو۔

جلوس میں قائم بھائی کا بیٹا، داماد اور کئی دوسرے رشتے دار بھی شریک تھے۔ قائم بھائی ان کے بجائے دوستوں کے ساتھ تھے۔ دوست انھیں اتنی خاموشی سے اٹھاکر اسپتال لے گئے کہ پوری دنیا نے دیکھ لیا لیکن گھر والوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ قائم بھائی کے دوست خفیہ والے ہیں۔ اوروں کو بھی ایسے ہی غائب کرتے ہیں۔

گھنٹے دو گھنٹے بعد قائم بھائی کے بہشت میں اعلیٰ مقام کی دعا گھوم پھر کر جلوس میں موجود ان کے داماد تک پہنچی تو وہ بھونچکا رہ گیا۔ خبر کی تصدیق کا وقت کس کے پاس تھا؟ وہ بیٹے اور بھائیوں کو لے کر گھر بھاگا۔ کہاں کھارادر، کہاں انچولی۔ گھنٹے بھر گاڑی میں ڈرائیور سمیت سب دھاڑیں مار کر روتے رہے۔

انچولی پہنچے تو پورے محلے میں کہرام بپا تھا۔ آٹھ محرم کی شام ہوتا ہی ہے۔ گلی میں پہنچے تو شور مچا ہوا تھا۔ ظاہر ہے گھر گھر مجلس ہورہی تھی۔ ہر آنکھ میں آنسو تھے۔ یہ بھی روتے پیٹتے گھر میں گھسے۔

ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوکر بے ہوش ہوجانے والے قائم بھائی اسپتال سے ڈرپ لگوانے کے بعد گھر آکر سوچکے تھے۔ چیخنے چلانے کی آوازیں سن کر کمرے سے باہر نکلے تو ایک بار پھر سب کی چیخیں نکل گئیں۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi