مبشر علی زیدی کی خدمت میں


\"ali-ammar\" مبشر علی زیدی صاحب، آپ لکھتے نہیں، بلکہ قلم کی نوک ان زخموں پر پھیرتے ہیں جن کو مندمل ہوئے اک زمانہ ہوا۔ اگرچہ میرے کمرے میں پڑی کتابیں بتاتی ہیں کہ ان زخموں کے نشاں ابھی تک باقی ہیں یا یوں کہیے کہ رسی جل گئی لیکن بل نہیں گئے۔ سال دوہزار تین عیسوی میں، مبلغ تین روپیہ یومیہ جیب خرچ کا استعمال بذات خود ایک چیلنج ہوتا تھا۔ محلے میں ہونے والی ہفتہ وار پانی پت کی جنگوں کے لیے پانی والا پستول ،جو کہ دس روپے میں ملتا تھا ،خریدا جائے یا چھرے والے پستول کے لیے پانچ دن کے بچت پیکج پر عمل درآمد کیا جائے۔ سلیم صاحب کی ویڈیو گیم کے لیے تین روپے کے پانچ سکے خریدے جائیں یا ایک روپے میں ایک رس کے ساتھ 2 روپے کی لیمن بوتل کی چسکیاں لگائی جائیں۔ قرعہ فال لیکن ایک پانچویں چیز کے نام نکلتا تھا۔ صدیقیہ دارالکتب سے دو روپے روزانہ میں مظہر کلیم کی عمران سیریز کا ایک ناول لیا جا سکتا تھا۔ انکل اسلم ، میرے والد صاحب کے ساتھ کسی زمانے میں والی بال کھیلا کرتے تھے اور کتابیں پڑھنے والوں کی بہت حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ چنانچہ ان سے خصوصی رعایت کے ساتھ ایک دن میں دو ناول، تین روپے یومیہ کرائے پر لے جاتا تھا اور ایک ہی دن میں دونوں ناول ختم کر دیا کرتا تھا۔ یار غارعبداللہ اور مرحوم عدنان کے ذمہ’ نونہال ‘اور’ تعلیم و تربیت ‘ ہوتے تھے جبکہ ’پھول‘ کی ذمہ داری میری والدہ محترمہ کی تھی۔ والد صاحب ’جاسوسی‘ اور’ سسپنس‘ پڑھتے تھے اور ان کی غیر موجودگی میں ان دو پر بھی ہاتھ صاف کر لیا کرتا تھا گو اس دور میں ان کی سمجھ کم ہی آتی تھی۔ غرضیکہ کہ رسالے میرے پیچھے ہوتے تھے اور ناول میرے آگے۔

یہ وہ دور تھا جب ہرکتاب دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ اسے زمیں پر اتارا گیا ہے میرے لیے۔ جیب میں پیسے تو نہیں ہوتے تھے مگر اس کا بھی ایک علاج مل گیا۔ انٹرنیٹ آیا تو پتہ چلا کہ پی ڈی ایف بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور مفت میں کتابیں بھی مل ہی جاتی ہیں۔ لینڈ لائن کی سپیڈ اس وقت چار پانچ کلو بائٹس میں آتی تھی اور اس دور میں ، ڈیڑھ گیگا بائٹس کی کتابیں ڈاﺅنلوڈ کرنا اور پھر ان کو پڑھنا، جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر۔

پھر یونیورسٹی میں پہنچے تو زندگی میں پہلی بار اتنی بڑی لائبریری دیکھ کر مونہہ میں پانی آگیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ لٹریچر کی کتابیں صرف وہ لوگ ایشو کروا سکتے ہیں جو لٹریچر کے طالبعلم ہیں۔ ہوسٹل میں رہائش پذیر ایک دوست کا منت ترلا کر کے اس کا لائبریر ی کارڈ ہتھیا لیا اور دے دمادم کتابیں ایشو کروانی شروع کر دیں۔ پہلی بار ڈکنز سے واسطہ پڑا، منیر نیازی کے پاﺅں چھوئے، جین آسٹن سے سلام دعا ہوئی، غرضیکہ ایک دنیا تھی جو بانہیں پھیلائے منتظر تھی۔ پھر ادبی بیٹھکیں ہوتی تھیں۔ قاضی علی، ہر ہفتے یونیورسٹی میں ایک ادبی محفل سجاتے تھے، ایک محفل یونیورسٹی سے باہر جماتے تھے جہاں خالد سعید صاحب، رضی الدین رضی صاحب، ضیا ثاقب صاحب اور دوسرے قابل حضرات کو دیکھا، ان کو سنا اور محسوس کیا کہ بھائی خود کو بہت بڑی توپ سمجھتے رہے اور حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک پانی والی پستول بھی چلانا نہ آیا۔ ملتان آرٹس کونسل میں رضی الدین رضی صاحب ،دوسرے احباب کے ساتھ ایک ہفتہ وار محفل کا اہتمام کرتے تھے (میرا خیال ہے کہ یہ محفل اب بھی جمتی ہے)اور اس کے بالکل ساتھ ہی نیشنل بک فاﺅنڈیشن کا ایک شو روم ہوتا تھا جس میں اعلیٰ معیار کی کتابیں ادنیٰ نرخ پر دستیاب ہوتی تھیں۔ پھر ہم نے جلالپور میں ایک ادبی محفل ’کنچے‘ کا اہتمام کیا گو کہ یہ اتنی زیادہ کامیاب نہیں رہی اور اب تو بالکل ہی غیر فعال ہے۔

اور اب یہ عالم ہے کہ بقول گلزار کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے، مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں۔ دسترس میں ہیں، مگر پڑھے کون اور سر کون دھنے۔ فراز کی کلیات لے کر آیا تھا۔ ایک سال میں ختم کی۔ جو کتاب اچھی لگے وہ خرید تو فوراََ لیتا ہوں مگر پڑھتا ایسے ہوں جیسے ڈاکٹروں کی ہدایت پر نوزائیدہ بچوں کو قطرہ قطرہ دوائی دی جاتی ہے۔ شہزاد احمد نے کہا تھا :

وہ چہرہ کتابی رہا سامنے

بڑی خوبصورت پڑھائی ہوئی

ہماری پڑھائی چہرے کتابی کے سامنے نہیں بلکہ کتاب چہرہ یعنی فیس بک پر زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے میں مبشر علی زیدی کتابوں کی بات کریں تو بہت سی سہانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور دل چاہتا ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر بند کر کے میز پر رکھی گلزار کی کتاب اٹھا لوں یا یوسفی صاحب کا مجموعہ سینے سے لگا لوں۔ لکھتے رہیے مبشر زیدی کہ بقول شخصے؛

مدت ہوئی ہے بچھڑے ہوئے اپنے آپ سے

دیکھا جو آج تم کو تو ہم یاد آ گئے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments