انڈیا میں گاڑیاں بنانے کا شعبہ بحران کا شکار


کار

کئی کارخانوں نے کچـھ دنوں کے لیے گاڑیاں بنانا بند کر دیا ہے

رام ماردی پریشان ہیں کہ کہیں ان کی نوکری نہ چلی جائے۔ وہ مشرقی ہندوستان کے صنعتی شہر جمشیدپور میں موٹر کاریں اور بڑی گاڑیوں کے پرزے بنانے والی ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں۔

انھیں اگست میں صرف 14 دن ہی کام کرنے کا موقع مل سکا۔

رام ماردی کہتے ہیں ’اب تک تو ہماری زندگی پرسکون تھی۔ لیکن اب کھانے کے لیے پیسے اکٹھے کرنے اور بچوں کی سکول فیس ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔‘

جس فیکٹری میں وہ کام کرتے ہیں اس نے پرزوں کی طلب میں کمی کے سبب نصف ماہ تک عارضی طور پر کام بند کر دیا ہے۔

انڈیا میں گاڑیاں بنانے کی صنعت میں مندی کی وجہ سے کمرشل گاڑیاں بنانے والی انڈیا کی دوسری سب سے بڑی کمپنی اشوک لیلینڈ نے اپنے مختلف کارخانوں میں پانچ سے 18 دنوں تک گاڑیوں کی پیداوار بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

بی بی سی کے نتن سریواستو نے اس شعبے میں مندی کا جائزہ لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں برقی گاڑیوں کے لیے چیلنجز اور امکانات

’انڈیا کی معیشت صفر کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے‘

انڈیا کی معیشت کو مودی کس طرح چلائیں گے؟

موٹر گاڑیاں

انڈیا کی کار ساز صنعت میں دو دہائيوں میں سب سے بڑی گراوٹ نظر آئی ہے

اس شعبے میں کام کرنے والی ماروتی، ٹاٹا موٹرز اور مہندرا اینڈ مہندرا جیسی کمپنیوں نے گذشتہ چند ماہ کے دوران اپنی پیداوار میں کمی کا اعلان کیا ہے۔

انڈیا کی معیشت کو سست رفتاری کا سامنا ہے۔ اپریل سے جون والی سہ ماہی کے دوران معیشت کی ترقی کی رفتار پانچ فیصد رہی جو کہ گذشتہ پانچ سالوں میں سب سے کم ہے۔ اس کے علاوہ نجی سرمایہ کاری میں کمی اور بینکنگ کے شعبے کے بحران نے قرضوں کے حصول میں مشکلات پیدا کی ہیں اور ان تمام وجوہات کی بنا پر گاڑیوں کی طلب میں کمی ہوئی ہے۔

انڈین حکومت آنے والے برسوں میں روایتی گاڑیوں کے بجائے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی حمایت کر رہی ہے اور شاید اسی وجہ سے بعض ماہرین کے خیال میں گاڑیوں کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

گذشتہ دس ماہ سے گاڑیاں بنانے کے شعبے میں مسلسل گراوٹ نظر آئی ہے اور کاروں کی فروخت 41 فیصد تک کم ہو گئی ہے جو کہ دو دہائیوں میں سب سے تیز اور سب سے زیادہ گراوٹ ہے۔

یہ صنعت انڈیا کی سب سے بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے جس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ساڑھے تین کروڑ افراد کام کرتے ہیں اور یہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں سات فیصد سے زیادہ کا حصہ ڈالتی ہے۔

انڈیا میں کاریں

بعض اندازوں کے مطابق اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد، جن میں کنٹریکٹ والے افراد بھی شامل ہیں، اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اب یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر اسی طرح طلب میں کمی رہی تو پیداوار کو کم کرنے کے لیے مزید ملازمتیں جائيں گی۔

چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانے جو بڑے کارخانوں کو مختلف قسم کے پرزے اور سامان فراہم کرتے ہیں وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ایسے ذیلی کارخانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اس صورت حال میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے ماردی جیسے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں۔

مالکان کو بھی تشویش لاحق ہے۔ جمشیدپور میں گاڑیوں کے پرزے بنانے والی ایک کمپنی کے مالک سمیر سنگھ نے کہا: ’مجھے اپنی فیکٹری کو چلتا رکھنے کے لیے اس سے قبل کبھی اتنی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔ میرے ملازم کئی ہفتوں سے بے کار بیٹھے ہیں اور مجھے ان کا دُکھ ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو انھیں شاید دوسرے کاموں کی تلاش میں نکلنا پڑے گا۔ لیکن ہم تو کسی ملازمت کے لیے بھی نہیں جا سکتے۔ میری زندگی یہیں شروع اور یہیں ختم ہوتی ہے۔‘

مسٹر سنگھ کہتے ہیں کہ کاروباری شخصیات، کمپنی مالکان اور صارفین کے لیے مزید مشکلات بینکوں سے قرض لینے میں پیدا ہوئی ہے کیونکہ بینکوں نے قرضوں کے عدم وصولی اور اپنی بیلنس شیٹ میں کمی کے سبب قرض دینے کی شرائط سخت کر دی ہیں۔

گاڑیوں کے پرزے بنانے والی صنعت کی ایک تنظیم آٹوموٹیو کمپونینٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے رکن سنجے سبھروال نے کہا کہ پیداوار میں ’گراوٹ اس قدر وسیع اور ڈرامائی ہے کہ اس نے موٹر سائیکل سے لے کر کاروں اور کمرشل گاڑیوں تک ہر ایک پراڈکٹ کو متاثر کیا ہے۔‘

انڈیا کی کار ساز صنعت ایگزیکٹیو ٹیکس میں کمی اور گاڑیاں بنانے، فروخت کرنے اور خریدنے والوں کے لیے آسان قرضوں کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

حکومت نے حال ہی میں اس صنعت کو سہارا دینے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے جس میں نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس میں اضافے میں تاخیر اور بینکوں سے کار اور موٹر بائیک کے لیے دیے جانے والے قرض میں سود کی شرح کم کرنا شامل ہے۔

لیکن کیا اتنا کافی ہوگا؟ یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ ماہرین انڈیا کے آٹوموبائل شعبے میں اس گراوٹ کو تاریخ کی سب سے بڑی گراوٹ کہہ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp