پاکستانی ذرائع ابلاغ، ذرائع ابلاغ نہیں ہیں


چونکہ میں ایک طویل عرصے سے پاکستان سے دور ایک ایسے ملک میں ہوں جس کا پاکستان سے کوئی خاص ربط نہیں ہے جیسے چین کا ہے، امریکہ اور برطانیہ کا ہے، حتیٰ کہ ہندوستان، افغانستان، ایران، مشرق وسطٰی و سعودی عرب کا ہے جن کی مثبت یا منفی سیاست کا پاکستان پر اثر پڑتا ہے، جہاں سے اردو میں اخبار جاری ہوتے ہیں اور کہیں کہیں تو اردو کے علاقائی ٹی وی چینل بھی ہیں، اس لیے پاکستان سے متعلق جاننے کی خاطر انٹرنیٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اس ڈیجیٹل عہد میں کم از کم یہ سہولت تو ہے کہ اردو اخبارات اور اردو ٹی وی چینلوں تک پلک جھپکتے میں رسائی ہونا ممکن ہے یا پھر ٹی وی پر پیش کردہ ریکارڈ کیے ہوئے پروگرام دیکھے جا سکتے ہیں۔

یقین کریں یا نہ کریں کہ پاکستان کے کم از کم پانچ روزنامے زیادہ سے زیادہ دس منٹ میں دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ خبریں کم و بیش ایک سی ہوتی ہیں۔ کام کی خبر تو خیر کوئی ہوتی ہی نہیں اور اگر پاکستان سے متعلق کوئی خبر کسی اور ملک سے وابستہ ہو تو اسے، اپنے ہی انداز میں پیش کیا گیا ہوتا ہے۔ اگر اسی خبر کو اسی ملک جس سے وہ وابستہ ہو، اس کے ذرائع ابلاغ میں ڈھونڈ لیا جائے جو خبر کی اہمیت نہ ہونے یا کم ہونے کی وجہ سے بالعموم ڈھونڈا جانا ممکن نہیں ہوتا تو اس خبر کی جہت بیشتر اوقات بالکل مختلف ہوتی ہے یا کم ازکم یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے جو خبر جاری کی گئی ہے اسے حکومتی بلکہ خاص طور پر ریاستی مفاد کو پیش نظر رکھ کے ڈھالا گیا ہے۔

اگر خبریں پاکستان کے اندرونی حالات سے متعلق ہوں تو بیشتر اخبارات ان خبروں کو بھی موجودہ حکومت کی توقیر میں اضافہ کیے جانے کی خاطر حکومتی مفاد کے مطابق اور اگر سو فیصد نہیں تو پچانوے فیصد ریاستی مفادات کو پیش نظر رکھ کے تیار کرتے ہیں۔ حکومت پر تنقید اور حکومت کے نقائص بیان کرنا چونکہ خود ذرائع ابلاغ خاص طور پر اخبارات کے مالی مفاد میں نہیں ہوتا، کیونکہ اخبارات کا بہت حد تک انحصار حکومتی اشتہارات کے حصول پر ہوتا ہے، اس لیے اس حصے کو کم سے کم رکھا جاتا ہے۔ یہ اپنے طور پر سنسر کیے جانے کی بدترین شکل ہے۔

ٹی وی چینلوں پر ٹاک شو کے نام سے جو بے تحاشا پروگرام دکھائے جاتے ہیں، جنہیں لوگ تفریحی پروگرام کے طور پر بھی دیکھتے ہیں، ان میں سے اکثر غلط اطلاعات پہنچائے جانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی ملک کے سیاسی حالات وہاں کے سماج بشمول معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن سماجی مسائل سے متعلق پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی، کم ہوتی ہوئی انسانیت، بے روزگاری، مہنگائی، عدم برداشت وغیرہ وغیرہ بارے خاص طور پر پروگرام تیار نہیں کیے جاتے۔ لے دے کے سیاست سے متعلق پروگراموں میں صحافی، تجزیہ کار اور سیاست دان ان علائل کا جزوی طور پر ذکر کر دیتے ہیں وہ بھی کسی ایک گروہ یا سیاستدان پر کیچڑ اچھالتے ہوئے جبکہ یہ علائل کثیر الاسباب ہوتے ہیں اور ان مسائل سے متعلق اگر آرا لی جانی چاہییں تو ماہرین عمرانیات و ماہرین نفسیات و ماہرین معیشت کی نہ کہ صحافیوں اور سیاستدانوں کی جو اپنے مخصوص مفادات کی وجہ سے سٹیریو ٹائپ سے نکل نہیں پاتے۔

ذرائع ابلاغ کے ساتھ بھی جو کچھ ہو رہا ہے اس بارے میں بھی اطلاعات مبہم ہیں۔ جیسے ذرائع ابلاغ پر اعلانیہ یا غیر اعلانیہ پابندیاں یا سنسر، صحافیوں کو اخبارات اور چینلوں سے نکالا جانا۔ شکر ہے کہ فی الحال سوشل میڈیا موجود ہے جس میں ناصر زیدی جیسے صحافی رہنماوؑں کی ایسے معاملات پر احتجاج کی تصاویر میں موجودگی احساس دلا دیتی ہے کہ حالات گمبھیر ہیں۔

رہ گئے ویب اخبارات اور ویب سائٹس وہ بھی خود کو بچا بچا کے رکھتے ہیں کیونکہ انہیں چاہے وہ ملک سے جاری ہوتے ہوں یا بیرون ملک سے حکام کسی بھی چھوٹی سی بات پر اپنی ناپسندیدگی کے سبب بے بنیاد وجہ سے یا بلا وجہ بند کرسکتے ہیں کیونکہ ایسے اردو ذرائع کے قارئین پاکستان سے ہی زیادہ ہیں چنانچہ وہ نہیں چاہیں گے کہ ان کا میڈیم بند ہو، یوں ایسے اخبار یا سائٹ کی انتظامیہ حتی الوسع کوشش کرے گی کہ ایسے الفاظ اور ایسے خیالات جن سے حکام ناراض ہوں نہ ہونے کے برابر ہوں۔ یہ بذات خود سنسر کی ایک شکل ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ اگر مکمل طور پر نہ سہی مگر جزوی طور پر ذرائع ابلاغ نہیں ہیں۔ ذرائع ابلاغ، ذرائع ابلاغ ہی رہیں اس کی خاطر ضروری ہے کہ جس ملک کے یہ ذرائع ہوں وہاں جمہوریت بھی مضبوط اور قریب قریب مکمل ہو مگر مستقبل قریب میں ملک عزیز کا ایسا مقدر ہونا دکھائی نہیں دے رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).