مخبر کی اطلاع


یاد ہیں وہ دن جب یہ بات چھُپتی نہیں چھپتی تھی کہ “مخبر کی نشاندہی پر مجرم گرفتار” زمانے کے انداز بدلے گئے، اب تو کوچہ و بازار میں یہ زبان زد خاص و عام ہوتا ہے کہ “مجرم کی نشاندہی پر مخبر گرفتار”۔ سو اب ہمیں بھی زمانے کے ساتھ چلنا ہے “بےسمت” چلیں گے تو جہنم واصل کر دیئے جائیں گے پس ہمیں مقام اعراف ہی کافی ہے، ہمیں نہ سمجھاؤ یارو !

جہاں معاملہ یہ ہو جائے کہ “شریکِ جرم نہ ہوتے، تو مخبری کرتے” ایسے میں صورت حال اور بھی سنگین ہو جاتی ہے۔ پہلی صورت میں کم از کم کسی ایک کو جھوٹی سچی سزا تو ملتی ہے، مخبر کو ملے یا مجرم کو لیکن اس “شریکِ جرم” والی واردات میں مخبر اور مجرم دونوں فارغ مگر مدعی کی خیر نہیں۔ لیکن، یہاں ایک بات پوچھوں، مدعی اگر ریاست ہو، تو ؟ ریاست بھی تو اس وقت ہی ماں کی گود یا باپ کے سائے کی طرح لگتی ہے، جب کوئی چھپ چھپ کر بات نہ سن رہا ہو، نہ کر رہا ہو کیونکہ چُھپن چھپائی میں تو مطلق العنانیت کا احساس ہوتا ہے، باشعور شہری یا شہری تو دور کی بات بچے کو بھی چوائس دیں تو وہ بھی بولنے کی آزادی اور جمہوریت کی طرف جائے گا۔ خدارا! اب کوئی ہم سے یہ نہ پوچھنے بیٹھ جائے، کہ ہم باشعور شہری جا کدھر رہے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ پائیں گے کہ، جدھر کی ہوا ہے، ہم ادھر جارہے ہیں کیونکہ شعور کبھی ہوا کے دوش پر رکھا ہوا چراغ نہیں ہوتا۔ شعور کی کونپلیں کسی بھی وقت کہیں بھی پھوٹ سکتی ہیں، صحرا کا سوکھا تنا کہیں ایک بوند کا اور کوئی گلشن باغبان کا منتظر، بس رت بدلنے کی دیر ہوتی ہے، جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں سیاسی میدان کی رتیں تو بدلتی رہتی ہیں، کبھی کسی سالار اعظم کے سبب تو کبھی عادل اعظم کی وجہ سے۔ سربراہ حکومت اور سربراہ مملکت کے سبب بھی تو موسم بدل سکتے ہیں؟ تغیر نہیں ہوگا تو جمود پنجے گاڑ لے گا اور جمود تو موت ہے !

عدل کا تدبر، اور ایک روحانی مخبری کہتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان ازسرِنو قدم جما سکتے ہیں گر عادل اعظم کی بات پر کان دھر لیں کیونکہ ان کے اپنے ساتھی اور وزراء تو نجی محفلوں میں کہتے ہیں، خان صاحب ہماری نہیں سنتے، کچھ سنانے کی کوشش کریں تو روٹھ جاتے ہیں۔ سو اب جو عادل اعظم نے کہا ہے کہ : 1- طرز حکمرانی میں سیاسی دائرہ کار کا سکڑنا آئین اور جمہوریت کیلئے خطرناک ہے۔ 2- احتساب پر سیاسی انجینئرنگ کا تاثر ختم کرنا ہوگا۔ 3- رائے دبانا بداعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ 4- میڈیا پر قدغن تشویشناک ہے۔ 5- معاشرتی تناؤ جمہوریت کیلئے خطرہ ہے۔ فاضل چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کے ان ریمارکس کو حکومت اگر اصلاحی زاویے سے دیکھے تو اس کا اور ملک و قوم کا بھلا ہے۔ بالفرض اسے “فیصلہ” سمجھ لیا جائے، تو بھی ملت اور حکومت کا بھلا ہے کہ، حکمران ازسرنو صف بندی کر کے عوام کے لئے جیو اور جینے دو کے پیکج کا اعلان کریں۔ ورنہ مخبری تو پکی ہے کہ اگر آج الیکشن ہوں تو پنجاب اور مرکز ہاتھ سے سرک جائیں۔ وہ الگ بات ہے کہ مخبر کی اطلاع کے مطابق مڈٹرم الیکشن کے دور دور تک کوئی آثار نہیں کیونکہ ایک طرف مجبت ان جوانوں سے ہے جو ستاروں و سیاست کاروں پر ڈالتے ہیں کمند۔ اور دوسری طرف اپوزیشن کے پاس وہ بانس ہی نہیں جس سے بجے بانسری!

چلو ایک بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ عمران خان ایرے غیرے کی نہیں سنتے چاہے وہ قبل از انتخابات والا انصافی ہو یا بعد از انتخابات کا مگر یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ، شفقت محمود، شاہ محمود، پرویز خٹک وغیرہ واقعی وزیراعظم کو مشاورت سے نوازتے ہیں یا عہد حاضر میں کراچی کے پیرزادوں ہی کے قانون الدین و شریف الدین کا فروغ چل رہا ہے؟ کوئی بتائے تو سہی کراچی کے انصافی جمہور جمہور کھیلنے کے بجائے “بھائی، بھائی” کھیلنے کے درپے کیوں ہیں؟ مجھے تو دفعہ 149 ترقیاتی و منصوبہ بندی و اصلاحات کے امور میں وفاقی کار خیر ڈالنے والی دفعہ لگتی ہے، قبضہ جمانے والی نہیں، کوئی فروغ نسیم صاحب کو یہ بتلائے کہ 7 تا 28 دفعات بھی کبھی آپ عمل میں نہ سہی لب پر ہی لائیں جن کا تعلق حقوقِ انسانی اور جمہوریت سے ہے۔ ارے بھئی خوش نصیب ہے یہ حکومت کہ عدلیہ رہنمائی فرما رہی ہے ورنہ جو اعزازات نوازشریف اور یوسف رضا گیلانی کو حاصل ہیں، وہ بھی تو کوئی یاد کرے، یہ تو کل کی تاریخ ہے پتھر اور پتوں کے دور کی نہیں۔

تاریخ سے وہ یاد آیا حلقۂ یاراں کو کیا یاد ہے کہ 18 ویں ترمیم، صوبائی خود مختاری، این ایف سی ایوارڈ، آغاز حقوق بلوچستان، سی پیک کی ابتدا، پاک ایران گیس پائپ لائن، پارلیمنٹ کی بالادستی، امریکہ سے اڈے خالی کرانا، نیٹو سپلائی لائن روکنا، سوات میں قومی پرچم کی بحالی اور تھرکول پراجیکٹ کو جاری رکھنا جیسے اعزازات کن کے ماتھے کا جھومر ہے؟ بلاول بھٹو اگر 18 ویں ترمیم اور صوبوں کی خودمختاری کی بات کرے تو، کرم فرما سیاق و سباق چھوڑ “سندھو دیش” کی اصطلاح پر کیوں زور دیتے ہیں؟ مخبر کے ہاں اچھی خبر بھی ہوا کرتی ہے گر کوئی ذہن و قلب حسن ظن رکھتا ہو! ارے بھائی کراچی سے زیادہ ذہنوں اور اس کے بعد پنجاب اور کے پی کے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انا اور جمہوریت اکٹھے نہیں چل سکتے ممکن ہو تو تاریخ کھنگال کر دیکھ لیں۔ ویسے تو عقلمند کیلئے چیف جسٹس کا اشارہ ہی کافی ہے!

حقیقتاً جہاں حسن ظن کی خاموشی ناگن بن کر ڈسنے لگے وہاں بدگمانیوں کا زہر وہ پھیلتا ہے کہ، الایمان و الحفیظ۔ بے سروسامانی کے اس دور میں کوئی سیانا مخبر یہ بھی اطلاع دے، کہ حزبِ اقتدار طرز حکمرانی سے نا آشنا ہے اور حزبِ اختلاف مزاحمتی سیاست سے نابلد، تو پھر کون ہے جو وحشتوں کا ساتھی ہو؟ اور مخبر کی سوال نما اطلاع یہ بھی ہے:

عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں

عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).