”غدار بلاول“ اور سندھ کی تقسیم کی گریٹ گیم


اس ملک میں محب وطن ہونے اور غداری کے سرٹیفکیٹ ملنا کوئی نئی بات نہیں۔ کل کے محب وطن پاکستانی سرحدوں کے محافظ آج کے مشکوک شہری ہیں اور اسی طرح کل کے کچھ غدار وطن قوم پرست نوابشاہ میں ملک کے ساتھ وفاداری کی قسمیں کھاتے اور ماضی میں اپنی غداری پر آنسو بہاتے نظر آئے۔ سندھ کے لوگ سائیں جی ایم سید، کامریڈ نظیر عباسی، بشیر خان قریشی، ٹھوڑی فاٹک پر مرنے والوں جان فروشوں، مائی جنڈو کی جوانمردی سے لے کر بھٹو فیملی کی جدوجہد اور قربانیوں کو بہت قریب سے دیکھتے آئے ہیں۔

جنرل ایوب کے خلاف طلبا 6 تحریک ہو، ایم آر ڈی تحریک ہو یا مشرف کے خلاف نفرت کا اظہار ہو سندھ نے ہمیشہ اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ سندھ کے لوگوں کو شروع ہی سے لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں سندھ کے لوگ اندروں ی قوتوں کی سازشوں کا کبھی شکار ہوتے رہے مگر لاڑکانہ میں اردو بولنے والے خادم انصاری اور سمیع سندھی جیسے کئی لوگ سندھ سے محبت کے گیت لکھ کر ان لسانی تفرقات کو رد بھی کرتے رہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور پاکستان تحریک انصاف کے وزیر قانون فروغ نسیم کے کراچی میں آرٹیکل 149 کے نفاذ پر ابھی بحث و مباحثہ جاری ہی تھا کہ بلاول بھٹو زرداری نے ماضی کے بنگلہ دیش اور سندھو دیش کا ذکر کر کے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ماضی سے کچھ سیکھیں ورنہ انگریزوں کے تقسیم اور حکومت کرنے والی پالیسی سے اس ملک کی جڑیں مزید کھوکھلی ہو جائیں گی۔ اگر اکائیاں کمزور کرو گے تو وفاق بھی مضبوط نہ رہ پائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو پر بھی غداری کے الزامات لگا کر اس ملک میں یہ نعرے لگتے رہے ہیں کہ ملک بچاؤ بھٹو ہٹاؤ اور بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کے بعد ان کی ختنے نہ ہونے کی ایک گری ہوئی سازشی تھیوری کو جنم دینے کی بھی کوشش کی گئی اور اسی طرح بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کر کے انہیں بھی غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے اور اب بلاول بھٹو نے بھی سندھو دیش کی بات کر اپنا نام غداروں کے فہرست میں شامل کر دیا ہے اور سابق صدر آصف علی زرداری کو تو ویسے ہی مرتضیٰ بھٹو کے قتل سے لے کر بے نظیر بھٹو کے قتل، عزیر بلوچ کے بیان حلفی، بے نامی اکاؤنٹس میں غدار اور ملک میں کرپشن کے بے تاج بادشاہ کے طور پر مشہور کیا گیا صرف ان کا نام بھارتی جاسوس کل بھاشن جادھیو لینا بھول گیا۔

اس ملک خداداد میں غدار ابن غدار کی سازشی تھیوری چلتی رہے گی۔ اس وقت ایم کیو ایم پاکستان بشمول وزیر قانون فروغ نسیم آئین کے آرٹیکل 149 کے نفاذ کو صرف مقامی حکومتوں کو طاقتور کرنے اور کراچی کو کچرے سے پاک کرنے کے لیے استعمال کرنے اور سندھ ماں کے سچے سپوت ہونے کی قسمیں کھاتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ ماں کا بٹوارہ نہیں ہونے دیں گے مگر ماضی قریب اس بات کی گواہی دیتا رہا ہے کہ ان سچے سپوتوں نے کراچی میں لسانی بنیادوں پر سیاست کی اور اسی سندھ ماں کے بٹوارے کی بات بار بار کرتے رہے ہیں۔

اس لیے سندھ کے لوگ آئین کے آرٹیکل 149 کے نفاذ کو کسی بڑی گریٹ گیم کا حصہ سمجھ رہے ہیں کہ دراصل یہ شروعات ہیں اس کے پیچھے کہانی سندھ اور کراچی کو الگ کرنے کی ہے جو سندھ میں رہنے والوں کو کبھی بھی قابل قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سندھ کے حلیف جماعت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی وزیر قانوں فروغ نسیم کے اس بیان کی مخالف کرتے نظر آ رہے ہے مگر ایم کیو ایم، پاکستاں تحریک انصاف سندھ کے نمائندے اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سمیت کئی مقتدر قوتیں اس بات پر کام کرتے نظر آ رہی ہیں کہ سندھ میں گورنر راج لاگو کر کے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم کیا جا سکے اس لیے وہاں پر سیاسی انجینئرنگ کر کے ماضی کی طرح پی پی پی میں فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی طرح اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے نام کی گونج سنائی دے رہی ہے اور یہ بھی قوی امکان ہے کہ نیب سے بچنے کا چورن استعمال کر کے کئی رہنماؤں کی وفاداریوں کو تبدیل کیا جا سکے۔

ایم کیو ایم پاکستان جب پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئی اس وقت موجودہ صدر پاکستان جناب عارف علوی اور ایم کیو ایم پاکستان کے رکن رابطہ کمیٹی فیصل سبزواری کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ ایم کیو ایم کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے گا۔ ایم کیو ایم کے تھنک ٹنیک کو بھی پتہ ہے کہ ایم کیو ایم کی مدد کے بغیر ملک میں کوئی سیاسی یا غیر سیاسی حکومت نہیں بن سکتی اس لیے ایم کیو ایم صحیح وقت اور موقع کے انتظار میں ہے جیسے ہی وہ اس کو مل جائے گا وہ دوبارہ اپنے جاہ و جلال کے ساتھ ملک میں اردو بولنے والوں کے نام پر سیاست کرتی نظر آئے گی۔ ایک دفعہ پھر ایم کیو ایم اپنے سیاسی ہتھکنڈے استعمال کر کے اس کریٹ گیم کا حصہ بننے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ سندھ کی عوام اس طرح کی سیاسی جماعتوں کے اوچھے ہتھکنڈوں کا شکار ہوکر تقسیم نہیں ہونا چاہتی

لہذا سندھ کی عوام، سیاسی پارٹیوں، دانشور، ادیب و شاعر حضرات نے 22 ستمبر کو کراچی کے پریس کلب کے سامنے جمع ہوکر سندھ کو تقسیم کرنے والی اس گھناؤنی سازش کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان جو اس وقت پاک و صاف ہوکر کرپشن اور بدعنوانیوں کی باتیں کر رہے ہیں ان کے کراچی میں قتل و غارت، کرپشن اور بدعنوانیوں کا احتساب کب ہوگا اور کون کرے گا؟ یہ تو وہ بات ہوئی کہ سو چوہے کھا کے بلی چلی حج کو۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے ڈرائی کلین وزیروں مشیروں کا احتساب کب ہوگا جو مختلف حکومتوں کا حصہ بن کر مراعات حاصل کرتے رہے ہیں۔ اگر نواز شریف اور آصف زرداری ملک میں لوٹ مار کر رہے تھے تو یہ کون سا اس وقت نیک کاموں میں مصروف عمل تھے؟

تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں باچا خان، بزنجو، بھٹو، جی ایم سید جیسے رہنماؤں کے نظریات کو چاہ کر بھی کوئی ختم نہیں کر پایا اگر شکست کا سامنا ہوا تو جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے نظریات کو ہوا اور ہوتا رہے گا۔ سرٹیفیکٹ دینے سے نہ ہی کوئی غدار بنتا ہے نہ ہی کوئی محب وطن۔ ہمارے لیے یہ سوچ کا مقام ہے کہ ہم اس طرح کے واقعات سے سیکھیں کہ اس طرح کی سیاسی انجنیئرنگ ملک کے استحکام کے لیے کتنی مضر ثابت ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).