شہر آشوب کا جادو گھر کتابی تبصره


 ”کچھ بے ترتیب کہانیاں“ ارشد رضوی کی شہر آشوب کی بے ترتیب کہانیاں ہیں، اور ان کہانیوں میں بپھرا ہوا سمندر ہے، مجذوب و مرطوب ہوائیں ہیں، وسیع و عریض شہر کے طویل اور تھکا دینے والے راستے ہیں، جا بجا بکھری ہوئی تار کول کی سڑکیں ہیں جن کو اعلی شان گاڑیاں اور بوسیدہ بسیں سارا دن روندتی ہیں، روشن اور طویل دن ہیں۔ نم ناک راتیں ہیں۔ کچے گھر بھی ہیں، مسمار ہوتے قدیم مکان ہیں، عالی شان محل ہیں۔

مسلک و فرقے کی بنیاد پر قائم عبادت گاہیں ہیں۔ دوغلے مرشد اور منافق علماء ہیں۔ شہر آشوب میں بے پناہ ہجوم ہے۔ جومعاش کی فکر میں ہے، ہجوم کی زندگی ادھر سے ادھر شہر آشوب کے طویل راستوں پر ڈولتی ہے۔ شہر آشوب میں بہت سے لوگ پرندے پالتے ہیں۔ شہر میں بہت سے بوڑھے ہیں، جو ماضی کی خاکستری راکھ کریدتے ہیں، بچے خطرناک ٹریفک میں بے آرام موٹر سائیکلوں اور سوزوکیوں پر لدے اسکول جاتے ہیں۔ کسی بھی وقت کوئی حادثہ رونما ہو سکتا ہے لیکن شہر آشوب میں بات بنی ہوئی ہے۔

نرم دل افراد ہیں جو مہنگے نشے خریدتے ہیں اور دوستوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ فقیر کو اپنا کوٹ اتار کر پہنا دیتے ہیں۔ شہر میں کبوتروں اور چیلوں کی بہتات ہے۔ درختوں سے الٹی لٹکی ہوئی چمگاڈریں ہیں جو سب دیکھتی ہیں، ان کنواری لڑکیوں کی طرح جن کی شادی کی عمریں نکل چکی ہیں، ان کے خواب قرمزی ہو چکے ہیں اور شہر کی سمندری ہوا انہیں اڑا کر دور لے گئی ہے۔ شہر کے زرد چاند کی روشنی میں شہر کے لڑکے وہ عورتیں ڈھونڈتے ہیں جو اپنے شوہروں سے اکتائی ہوئی ہوں، اکثر ان کی تلاش ناکام رہتی ہے۔

اور وہ خواب دیکھتے ہوئے نیند کی وادی میں بھٹکتے ہیں۔ شہر آشوب کی مشعلوں میں ایلوڈیا کے پتے اگتے ہیں اور سمندر کی مرطوبیت ان پتوں پر کائی کی طرح جمتی جاتی ہے۔ مصنف نے شہر آشوب میں جادو گھر بنایا ہے۔ جہاں نظم لکھی اور کہی جاتی ہے، جہاں تنہائی ہے، پھولوں کی خوشبو ہے، تتلیاں ہیں، محبوب ہے اور بارش ہے، آنکھوں کا کاجل ہے، گیلی زلفیں ہیں۔ ہیں، مطمئن ہنسی ہے، شرارتی و حیران مسکراہٹ ہے اور بہ مطابق خواہش غذا و چائے ہے۔ شہر آشوب کا جادو گھر وہ تمنا ہے جو انسان کے دل میں ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ بے ترتیب کہانیاں شہر آشوب کے جادو گھر میں بند ہیں۔ جس دن انسان اپنی خود ساختہ اذیتوں پر قابو پا لے گا، شہر آشوب کے جادو گھر کے دروازے اس پر کھل جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).