سعودی عرب میں حملوں کے بعد تیل کی عالمی قیمت میں تیزی سے اضافہ


Smoke is seen following a fire at Aramco facility in the eastern city of Abqaiq

سنیچر کے روز سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں تیزی سے بڑھی ہیں اور گذشتہ چار ماہ کی بلند ترین سطی کو جا پہنچی ہیں۔

ان حملوں کی وجہ سے تیل کی عالمی رسد میں فوری طور پر پانچ فیصد کمی آ گئی ہے۔

عالمی منڈی میں ٹریڈنگ کے آغاز پر ہی خام تیل کے بیرل کی قیمت میں 19 فیصد اضافہ ہوا اور وہ 71.95 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی تھی۔ اس کے علاوہ تیل کی قیمت کا دوسرا اہم پیمانہ ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کی قیمت میں 15 فیصد اضافہ ہوا اور وہ 63.34 ڈالر تک پہنچ گئی۔

تاہم بعد میں صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی ذخائر ریلیز کرنے پر قیمت میں تھوڑی کمی آئی۔

یہ بھی پڑھیے

تیل کی قیمتوں کی سیاست

پہلی مرتبہ امریکہ کی تیل کی برآمدات درآمدات سے زیادہ

’ایرانی تیل کی فروخت پر پابندیاں آہستہ آہستہ لگائیں گے‘

سعودی تنصیبات کے مکمل طور پر واپس آپریشنل ہونے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

سعودی کمپنی آرامکو کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں پیداوار میں 5.7 ملین بیرل روزانہ کی کمی دیکھی گئی ہے۔ یاد رہے کہ یہ واقعات ایک ایسے وقت پیش آ رہے ہیں جب آرامکو خود کو شٹاک مارکیٹ میں متعارف کروانے والی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی لسٹنگ ہوگی۔

ان حملوں کی ٹی وی پر نشر ہونے والی ویڈیو میں بقیق میں ڈرون حملے کے بعد آرامکو کے تیل کے دنیا کے سب سے بڑے پراسیسنگ پلانٹ پر لگی آگ کو دیکھا جا سکتا ہے جبکہ خریص میں دوسرے حملے سے بھی کافی نقصان ہوا ہے۔

حملوں کے بعد امریکی حکام نے ایران کو ان کا ذمہ دار ٹھہرایا تاہم ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کے اس الزام کو ‘صریحاً دھوکے بازی’ قرار دیا ہے۔

سعودی عرب اور مغربی ممالک کا فوجی اتحاد یمنی حکومت کی حمایت کرتا ہے جبکہ یمن میں حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔

اگر ان حملوں کے پیچھے حوثی باغی تھے تو ان کے ڈرونز نے یمن سے سعودی عرب تک کئی میل کا سفر طے کیا ہو گا۔

امریکی سیکریٹری خارجہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ہونے والے ڈرون حملوں کے بعد اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ حملے یمن سے کیے گئے۔

انھوں نے یمنی حوثی باغیوں کے اس دعوے کو بھی رد کیا تھا جس میں انھوں نے بقیق اور خریص میں سعودی تیل کمپنی ‘آرامکو’ پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کی رپورٹ کے مطابق ماہرین اس بات کا جائزہ بھی لے رہے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے ایران یا عراق میں موجود ان کے حمایتی ہو سکتے ہیں جنھوں نے ڈرونز کی جگہ کروز میزائل استعمال کیے۔

حملوں کے پیچھے کون ہو سکتا ہے؟

گذشتہ ماہ شیبہ میں قدرتی گیس کو مائع بنانے والی تنصیبات پر اور مئی میں دیگر تیل تنصیبات پر ڈرون حملوں کے لیے حوثی جنگجوؤں کو سعودی عرب کی جانب سے موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا۔

ایران کی حمایت یافتہ باغی تحریک یمنی حکومت اور سعودی اتحاد کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔

یمن 2015 سے جنگ کا شکار ہے جب صدر عبدالربہ منصور ہادی کو حوثیوں نے دارالحکومت صنعا سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ سعودی عرب صدر ہادی کی حمایت کرتا ہے اور اس نے باغیوں کے خلاف علاقائی ممالک کے ایک اتحاد کی قیادت کی ہے۔

اتحاد کی جانب سے تقریباً روزانہ فضائی حملے کیے جاتے ہیں جبکہ حوثی اکثر سعودی عرب میں میزائل فائر کرتے ہیں۔

مگر خطے میں تناؤ کے دیگر ذرائع بھی ہیں اور اکثر ان کی بنیاد سعودی عرب اور ایران کے درمیان دشمنی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

سعودی عرب اور امریکہ دونوں ہی نے ایران پر جون اور جولائی میں خلیج میں ہونے والے دو آئل ٹینکروں پر حملوں کا الزام عائد کیا۔

تہران کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔

مئی میں دو سعودی پرچم بردار ٹینکروں سمیت چار ٹینکر خلیجِ عمان میں متحدہ عرب امارات کی بحری حدود میں دھماکوں سے نقصان کے شکار ہوئے تھے۔

سعودی عرب اور اس وقت امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جون بولٹن نے ایران پر الزام عائد کیا تھا۔ تاہم تہران کی جانب سے ان الزامات کو ‘مضحکہ خیز’ قرار دیا۔

اہم ترین بحری راستوں میں تناؤ میں جون میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب ایران نے آبنائے ہرمز کے اوپر ایک امریکی جاسوس ڈرون کو مار گرایا۔

اس کے ایک ماہ بعد امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے اعلان کیا کہ وہ سعودی عرب میں فوجی تعینات کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32536 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp