بہو چڑیل اور ساس ڈائن: بنے بنائے سانچے


ہمارے ہاں ہر رشتے کا تعلق میاں بیوی کے رشتے سے جا جڑتا ہے۔ سسرالی رشتوں کا تعلق بہت واضح طور پہ اور بہت غیر جذباتی انداز میں میاں بیوی کے کاغذی رشتے سے منسوب سمجھا جاتا ہے. اسی لیے وہ تمام رشتے جن کا کسی بھی حوالے سے سسرالی تعلق بنتا ہو انہیں کمزور اور غیر جذباتی تعلق گردانا جاتا ہے. انگریزی کی اصطلاح “اِن لاز” معاشرتی طور پہ اس رشتے کی کم جذباتی اور زیادہ قانونی نوعیت کو واضح کرتی ہے.

حقیقی حوالے سے سمجھا جائے تو اس تعلق کی وجہ سے کوئی بھی فرد مثبت اور منفی دونوں قسم کے جذبات کا سامنا کرتا ہے. ساتھ ہی ان سے بننے والا تعلق میاں بیوی کے آپس کے رشتے پہ بھی بہت شدید انداز میں اثر انداز ہوتا ہے. مشرقی معاشرے میں تو یہ روایت پائی جاتی ہے کہ حجلہء عروسی میں جاتے ہی شوہر سب سے پہلے یہ واضح کرتا ہے کہ بیوی ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ اس کے لیے اس کی ماں یا اس کے گھر والے ہمیشہ پہلے رہیں گے اور بیوی بھی ان کی خدمت کو اپنی زندگی کا اوّلین مقصد بنائے گی تب ہی بطور بیوی اور بہو عزت پاسکے گی.

اگلے قدم پہ خاندان میں ہونے والی دعوتیں لڑکا اور لڑکی دونوں کے لیے سسرال اورئینٹیشن کورس کے طور پہ برتی جاتی ہیں.

یہ ان بنیادی غلطیوں میں سے ایک ہے جو اس رشتے کو جذباتی حوالے سے منفی رخ دے دیتی ہے.

یہ وہ وقت ہے جب لڑکی جذباتی اعتبار سے سب سے زیادہ توڑپھوڑ کا شکار ہے. لڑکا نسبتاً کم ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے لیکن رشتے نبھانے کے حوالے سے اس سے بھی بہت ساری اور غیر منطقی توقعات وابستہ ہیں.

رخصتی والے دن عموماً لڑکیاں بخار، سردرد، پیٹ درد، ذہنی دباؤ، بھوک کی کمی، بار بار پیشاب کی حاجت کا شکار ہوتی ہیں اور اس کی وجوہات بھی واضح ہیں. جہاں پاکستان میں ایک طرف اب بھی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جہاں لڑکیاں نئے نویلے دولہا سے قطعاً واقف نہیں ہوتیں یا نکاح سے پہلے چند بار کی پرتکلف بات چیت تک جان پہچان ہوتی ہے وہاں اب بہت سے خاندان آہستہ آہستہ منگنی سے نکاح کے دوران تک بہتر بات چیت کے مواقع فراہم کرنے لگے ہیں. یعنی شہروں میں رہنے والی نسبتاً تعلیم یافتہ لڑکیاں کسی حد تک شوہر کو جان جاتی ہیں. گاؤں میں معاملات اس سے مختلف ہیں کہ لڑکی اپنی سسرال اور ہونے والے شوہر کو عموماً بچپن سے جانتی ہے. لیکن تینوں صورتوں میں نئے گھر اور نئے رشتوں کا ذہنی دباؤ کم و بیش ایک جیسا ہوتا ہے.

لڑکیوں کو واضح ہوتا ہے کہ ان کا واسطہ شوہر سے زیادہ ساس نند یا دیورانی جیٹھانی سے پڑے گا. اسی لیے کچھ والدین اپنی بیٹیوں کے لیے ایسے گھرانے چننے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں سسرالی رشتے کم ہوں ساس ہو ہی نہیں یا ہو تو غیر حقیقی حد تک سیدھی ہو ایسی غلط فہمیاں شادی کے کچھ ہی عرصے میں زائل ہوجاتی ہیں. ایسی غلط فہمی بہت سے ساسوں کو بہو چنتے وقت بھی ہوتی ہے اور وہ بھی جلد زائل ہوجاتی ہے تو کیا یہ فیصلے اور چناؤ کی غلطی ہے؟

اس سوال کا جواب ہے نہیں. یہ چناؤ کی نہیں بلکہ اس کے بعد رشتہ نبھانے کی غلطی ہے. بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ چناؤ ہی غلط ہو لیکن زیادہ تر مسائل اس لیے پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ بہو اور سسرالی دونوں ایک دوسرے سے غیر حقیقی امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں اور پنی طرف سے ان مثبت اصولوں پہ دھیان نہیں دیتے جو رشتہ نبھانے کے لیے ضروری ہیں.

ہو سکتا ہے آپ لوگ سوچیں کہ پچھلے مضامین میں تو یہ خاتون چناؤ پہ بہت زور دے رہی تھیں اب کہہ رہی ہیں چناؤ اہم نہیں. تو جناب وہ تحریر اس تناظر میں تھی جب میاں بیوی کے پاس آپشن ہوتا ہے ایک دوسرے سے جنسی، جذباتی مطابقت چیک کرنے کا. یہاں تو فیصلہ اس مطابقت کو سرے سے نظر انداز کرکے بہو کی سسرال میں بنا کے چلنے والی صلاحیت کی بنیاد پہ ہورہا ہے. اور اگر خوش قسمتی سے چناؤ پہلی صورت کی بنیاد پہ ہوا ہے تو بھی سسرالی رشتے سرپرائز ہیں اور سارا دارومدار رشتہ نبھانے کے اصولوں پہ ہے. یہ اصول ناصرف بہو کے سسرال سے تعلق کے حوالے سے ہے بلکہ داماد کے سسرال سے تعلق کے حوالے سے بھی ہے.

میاں بیوی کے رشتے کی طرح یہ رشتے بھی کچھ وقت، کچھ توجہ اور کچھ سمجھ داری چاہتے ہیں. ضروری نہیں کہ سسرال میں آپ کی دوستی ایسے ہوجائے کہ آپ اور سسرالی رشتے دار یک جان دو قالب ہوجائیں مثلاً نند بھاوج، دیورانی جیٹھانی، ساس بہو، داماد سسر، یا بہنوئی سالا. یہ بات تفصیل سے ہم دوستی سے متعلق مضمون میں زیرِ بحث لائیں گے کہ ہم ہر کسی سے جذباتی نوعیت کی دوستی نہیں کرسکتے اس کے باوجود آپس میں عزت اور محبت کی فضا قائم کی جاسکتی ہے.

سسرالی رشتوں کے حوالے سے ہمیں نفسیاتی طور پہ بہت ایبنارمل سوچ رکھنے پہ مجبور کیا جاتا ہے. کہ وہ ہوتے ہی برے ہیں. پھر جو برے نہ ہوں تو بھی اچھائی ڈھونڈنا مسئلہ ہوجاتا ہے اور کچھ جان بوجھ کے بطور سسرالی رشتہ دار منفی کردار اپنا لیتے ہیں. دونوں حوالوں سے یہ سوچ اور اس کی بنیاد پہ بنے روئیے مسائل پیدا کرتے ہیں. بہو چڑیل لگتی ہے اور ساس ڈائن، داماد مفت خورہ، نخرے باز، ناکارہ لگتا ہے.

اگر ہم سیریز کے بالکل پہلے مضمون کے حوالے سے بات کریں تو سسرالی رشتے دار ایک دوسرے کی بقا کے لیے ضروری ہیں. اور ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں خاندان برادری سے نبھا کے چلنا ازحد ضروری ہے وہاں منافقت اور غلط فہمیوں کی بنیاد پہ رشتے کبھی مثبت شکل نہیں اختیار کرسکتے. ایک ہی چار دیواری میں رہتے ہوئے میرے ذاتی نفسیاتی اور جذباتی سکون کے لیے ضروری ہے کہ میں گھر میں جن افراد کے ساتھ رہ رہی ہوں ان کے لیے جذباتی طور پہ مثبت محسوس کرتی ہوں. ان کے بارے میں سوچوں تو اچھا محسوس ہو ان کے ساتھ وقت گزارنا سکون کا باعث ہو.

ایسے میں میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں مثبت اور پرسکون ماحول بنانے میں اپنا حصہ ضرور شامل کروں. ضروری نہیں کہ ہر بار اس کوشش کا مثبت نتیجہ نکلے کیوں کہ بہرحال ہمارے اردگرد مجرمانہ ذہنیت سے لے کر نفسیاتی مسائل کے شکار افراد تک سب موجود ہیں ایسے میں اس حد تک کوشش کرنی چاہیے جب تک آپ کی نفسیاتی صحت اور سکون اجازت دے اگر آپ کی تمام تر کوششوں کے باوجود مسائل بڑھ رہے ہوں اور حالات کسی بھی حوالے سے جسمانی، جنسی یا جذباتی تشدد کے زمرے میں آتے ہوں تو ان مسائل اور ایسے افراد سے دوری بہتر ہے. یہ مشورہ ناصرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی ہے اور صرف بہو اور داماد کے لیے نہیں بلکہ ساس، سسر، نند اور دیورکے لیے بھی ہے. یعنی دونوں طرف کے خاندان میں سے جو بھی کسی قسم کے تشدد سے گزر رہا ہے اس کے لیے اپنی نفسیاتی صحت اوّلین ترجیح ہونی چاہیے.

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima