مودی ٹرمپ ، بھائی بھائی


اعتبار کرنے کو ابھی تک میرے دل ودماغ تیار نہیں ہورہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو مگر تماشے لگانے کا شوق ہے۔خود کو دورِ حاضر کا حتمی Show Man سمجھتا ہے۔اسے یقین ہے کہ ٹی وی سکرینوں پر آتا ہے تو پنجابی والا ’’چھا-چھو‘‘ جاتا ہے۔صبح اُٹھتے ہی مخالفین کی بھداُڑانے والے ٹویٹ لکھ کر وہ وائٹ ہائوس پہنچ گیا۔ امریکی صدر کے دفتر میں بیٹھے ہوئے بھی ٹی وی پروگراموں اور ان کے اینکر خواتین وحضرات کی Ratingsطے کرتا رہتا ہے۔Fox TVکے جن پروگراموں کو بہت پذیرائی ملے ان کے اینکرز کے ساتھ بیٹھ کر ریاستی اداروں کو نظرانداز کرتے ہوئے خارجہ امور کے حوالے سے اہم ترین فیصلوں کا اعلان کردیتا ہے۔

سب سے پہلے ذکر مگر اس ’’خبر‘‘ کا جس پر مجھے ابھی تک اعتبار نہیں آیا۔بھارت کی ایک صحافی ہے سیماسروہی۔ کئی برسوں سے واشنگٹن میں مقیم ہے۔بھارت، امریکہ تعلقات کے بارے میں اس نے بے تحاشہ ’’اندر کی باتیں‘‘ بریکنگ نیوز بناکر پیش کی ہیں۔ہفتے کے روز اس نے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ ہفتے نریندرمودی امریکہ پہنچنے کے بعد امریکی ریاست کے شہر ہوسٹن جائے گا تو وہاں کے ایک بہت بڑے اسٹیڈیم میں بھارتی نژاد لوگوں سے 22ستمبر کے روز خطاب بھی کرے گا۔ خطاب والی خبرپرانی ہے۔نیا انکشاف یہ ہوا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ بھی اس اجتماع میں شرکت کو ’’تیار ہوچکا ہے‘‘۔

یہ اگرچہ بتایا نہیں جارہا کہ وہ اور مودی ایک ساتھ اس اجتماع میں شرکت کو پہنچیں گے یا سکیورٹی کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے الگ الگ آئیں گے۔ اس کا مذکورہ اجتماع سے خطاب بھی یقینی نہیں ہے۔یہ ا جتماع مگر سارا دن جاری رہے گا۔اس کے دو حصے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ایک نمائش کا اہتمام ہے جو بھارت،امریکہ تعلقات کی تاریخی حوالوں سے گہرائی اور گیرائی کو دستاویزی فلموں اور تصاویر وغیرہ کے ذریعے بیان کرے گی۔دوپہر کے بعد ایک جلسہ ہوگا جس سے بھارتی وزیر اعظم نے خطاب کرنا ہے۔امید باندھی جارہی ہے کہ مودی کی تقریر سے تھوڑی دیر قبل امریکی صدر اس جلسے میں نمودار ہوگا۔شاید ڈائس پر آکر چند ’’خیرمقدمی کلمات‘‘ کہے اور بھارت،امریکہ دوستی کو توانا تربنانے کا وعدہ کرتے ہوئے اپنے ’’یار‘‘ مودی سے رخصت طلب کرلے۔مذکورہ اجتماع میں 50ہزار بھارتیوں کی شرکت یقینی بتائی جارہی ہے۔

دعویٰ یہ بھی ہے کہ شاید بالآخر یہ اتنا بڑا اجتماع بن جائے کہ امریکہ کی تاریخ میں کسی بھی غیر ملکی شخصیت کے استقبال کے لئے آئی تعداد کا ریکارڈ ٹوٹ جائے۔اس سے قبل سب سے بڑا اجتماع پاپائے روم کی امریکہ آمد کے دوران دیکھنے کو ملا تھا۔ اس کی وجہ مگر امریکہ میں مقیم ہسپانوی زبان بولنے والوں کی اپنے روحانی رہنما سے عقیدت تھی۔ مودی کی پذیرائی کے لئے جمع ہوا ہجوم قطعاََ ایک ’’سیاسی‘‘ پیغام دے گا۔سیما سروہی کا دعویٰ ہے کہ امریکی صدر کو مذکورہ اجتماع میں شرکت کی دعوت ’’غیر رسمی‘‘ انداز میں اس وقت دی گئی جب وہ 26اگست کے روز بھارتی وزیر اعظم سے فرانس کے ایک شہر میں ملا۔ ٹرمپ نے آمادگی کے بجائے دلچسپی کا اظہار کیا۔

اس کے بعد سے مگر وائٹ ہائوس کے اہم افراد مستقل ان لوگوں سے رابطے میں ہیں جو ہوسٹن میں ہونے والے اجتماع کے انتظامات میں مصروف ہیں۔امریکی صدر کی سکیورٹی پر مامور افراد بھی 22ستمبر والے اجتماع کی تفصیلات کو ڈونلڈٹرمپ کی اس میں شرکت کے امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے معلوم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ڈونلڈٹرمپ نے اگر اس اجتماع میں شرکت کی تو یقینا ’’تاریخ‘‘ بن جائے گی۔ امریکی صدر پہلی بار کسی دوسرے ملک کے حکومتی سربراہ کی ’’اپنے لوگوں‘‘ سے ملنے کی خاطر ہوئی کسی تقریب میں شریک ہوگا۔ دُنیا کو اس کے ذریعے یقینا یہ پیغام مل جائے گا کہ امریکہ اور بھارت واقعتا ایک دوسرے کے آنے والے کئی برسوں کے لئے Strategic Partnersبن گئے ہیں۔

’’مودی -ٹرمپ -بھائی بھائی‘‘ کا پیغام دیتا سیما سروہی کا بیان کردہ منصوبہ میرے لئے بخدا فقط ایک پاکستانی ہونے کی وجہ ہی سے پریشانی کا باعث نہیں۔ٹرمپ اگر مودی کی سواگت کے لئے ہوسٹن میں لگائے شو میں گج وج کے شرکت کرے گا تو یہ واقعہ 80لاکھ کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔یہ کالم لکھتے وقت مقبوضہ کشمیر پر 5اگست سے مسلط شدہ کمیونی کیشن بلیک آئوٹ کا 42واں دن شروع ہوچکا ہے۔بھارتی حکومت اس کو ختم کرنے کو فی الوقت تیار نظر نہیں آرہی۔ محسوس ہورہا ہے کہ نریندرمودی کے امریکہ میں قیام کے دوران بھی وادیٔ کشمیر میں محبوس ہوئے بدنصیبوں کے موبائل فونز بند رہیں گے۔

سڑکوں اور بازاروںمیں مستقل کرفیو کی فضاء برقرار رہے گی۔مودی کی خاطر رچائے اجتماع میں شرکت کے ذریعے ڈونلڈٹرمپ 80لاکھ کشمیریوں پر نازل ہوئی نئی قیامت سے سفاکانہ حد تک بے اعتنا نظر آئے گا۔اس بے اعتنائی کے اظہار کے بعد وہ ایک حوالے سے یہ پیغام دے گا کہ پاکستانی وزیر اعظم سے 22جولائی کے روز ہوئی ملاقات کے دوران اس نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ’’ثالثی‘‘ کی جو پیش کش کی تھی محض ہمیں خوش کرنے کو گھڑی ایک کہانی تھی۔ مقصد اس پیش کش کا فقط اتنا تھا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ افغانستان سے امریکی افواج کو ٹرمپ کی ترجیحات اور طے شدہ ٹائم ٹیبل کے مطابق ’’باعزت‘‘ نکلوانے کے راستے بنانے پرمرکوز رکھے۔

طالبان سے امریکہ کا زلمے خلیل زاد کے ذریعے ایک سال سے زیر بحث رہا معاہدہ اس ماہ کے آغاز میں باقاعدہ اعلامیہ کی صورت پیش ہونے ہی والا تھا۔گزشتہ ہفتے کے اختتام پر لیکن ٹرمپ نے خود ہی ٹویٹ لکھ کر طالبان سے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کردیا۔اب وہ طالبان کو ’’سبق‘‘ سکھانے کی بڑھک لگارہا ہے۔ ہفتے کی سہ پہر اس کے دفتر نے سرکاری طورپر تصدیق کردی ہے کہ چند ہفتے قبل ’’پاک-افغان سرحدی علاقے‘‘ میں ہوئی ایک کارروائی کے ذریعے اسامہ بن لادن کے وارث حمزہ بن لادن کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ ’’القاعدہ‘‘ پر ایک ’’کمرتوڑ‘‘ حملے کے بعد ’’طالبان‘‘ کے خلاف سنگین ترین کارروائیوں کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔

افغانستان سے امریکی افواج کی جلدازجلد واپسی نظر بظاہر ڈونلڈٹرمپ کی فوری ترجیح نہیں رہی۔پاکستان کے ساتھ دوستی کے دعوے البتہ بدستور جاری ہیں۔دریں اثناء 26اگست کے روز مودی کی فرانس میں ٹرمپ سے ملاقات ہوگئی۔ اس ملاقات کے بعد بھارت کے ساتھ امریکہ تعلقات میں نئی گرم جوشی اُبھرتی نظر آرہی ہے۔بھارت کو خوب اندازہ ہے کہ ٹرمپ جنونی حد تک اپنے America Firstکے نعرے پر عملدرآمد ہوتا ہوا دکھانا چاہ رہا ہے۔اس ضمن میں اسے شکوہ ہے کہ بھارت کے ساتھ امریکہ کو تجارت میں سالانہ 60ارب ڈالر کا گھاٹا ہوتا ہے۔

اس خسارے سے اُکتاکر اس نے حالیہ بھارتی انتخابات کے کڑے مراحل کے دوران اپنے ملک میں بھارت سے آنے والی کئی درآمدات پر بھاری ڈیوٹی عائد کردی تھی۔نئی دہلی میں منصوبہ اب یہ تیار ہوا ہے کہ نریندرمودی کے امریکہ پہنچنے سے قبل ’’محدود‘‘ کہلاتے ایک نئے تجارتی معاہدے کا اعلان کردیا جائے۔ اس کی بدولت امریکہ کو اپنی کئی زرعی اشیاء اور مشینری بھارت کو برآمد کرنے میں بے پناہ آسانیاں مل جائیں گی۔

ٹرمپ خوش ہوجائے گا اور Moreکی امید بھی باندھ لے گا۔شاید ممکنہ تجارتی سہولتیں حاصل کرنے کے بعد امریکی صدر نے ہوسٹن میں ہونے والے بھارتی نژاد لوگوں کے اجتماع میں ’’تھینک یو‘‘ کہنے کو شرکت کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اپنے تجارتی مفادات کے حصول کے لئے منافع خور ذہنوں کی جانب سے ہوئے مول تول کا بھارت اور امریکہ کے لئے Win-Winدِکھتا بندوبست ہوجانے کے بعد۔ تجارتی مفادات کا غلاموں کی طرح محتاج ہوئی اس دُنیا میں 80لاکھ کشمیریوں پر مسلط ہوئے عذاب پر دردمندی سے غور کی فرصت ہی کسی کو میسر نہیں۔ اس ظالم دُنیا سے خیر کی خبر کا انتظار کرنا خوش گمانی ہے۔اس کے سوا کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).