نتھ (ارباب رشید احمد خان کا پشتو افسانہ)۔


توت کے درختوں میں کونپلیں نکلنے کو تھیں۔ بہار کے آثار تھے۔ گاؤں گاؤں شادیوں کے شادیانے بج رہے تھے، ہر طرف خوشیاں تھیں لیکن سلطان حجرے کے ایک کونے میں پڑی پھٹی چارپائی پر پڑا غم اور درد کی تصویر بنا ہوا تھا۔ دوپہر کے سائے بس لمبے ہی ہوئے تھے کہ سلطان نے ایک لمبی انگڑائی لی اور چارپائی میں بہ مشکل بیٹھ گیا۔

آج دوپہر تک اس کے نشے کا کوئی بندوبست نہ ہوسکا، کسی کام کاج کا وہ تھا نہیں اور نشہ مفت میں بانٹا نہیں جاتا۔ سلطان اسی فکر میں حجرے سے کہیں کھویا کھویا چل دیا اور جب اسے خبر ہوئی تو اپنے آپ کو غازی بابا کے قبرستان میں ایک نئے قبر کے سامنے پایا۔ قبر پر بچھے تازہ پھولوں کو تا دیر تکتا رہا، اُس کو ہر پھول سے یار قندی چرس کی خوشبو آرہی تھی۔

اس کے نتھنوں کو یہ خوشبو بہت بھلی محسوس ہورہی تھی، اس کا نشہ پکا ہو رہا تھا، سر جھولنے لگا اور ابھی نشہ پورا پکا نہیں تھا کہ اسے دور سے تمبل کی آواز سنائی دی۔ سلطان نشے سے بیدار ہوا اور تمبل کی آواز کے تعاقب میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ آواز قبرستان کی دوسری جانب سے آرہی تھی۔ قبرستان کے دوسرے سِرے کے ساتھ متصل راستے عورتیں بارات لئے جارہی تھیں۔ کوئی تمبل بجا رہی تھی، تو کوئی گانے گا رہی تھی، تالیوں کی آواز دور دور تک سنائی دیتی تھی۔

سلطان کی سوئی آنکھیں جاگ پڑیں، چہرے پر سرخی آگئی، اس کے بدن میں عجیب تحرک پیدا ہوا، دل میں کوئی خیال آیا، ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے جلدی جلدی چاروں طرف دیکھا، دور دور تک کوئی دکھائی نہیں دیا۔

بارات لے جاتی عورتیں جب تک قریب آتیں، سلطان اپنی قمیص اتار غازی بابا کے مزار کے راستے میں بچھا، اُس پر مزار کے چند پھول اور پتھر رکھ چکا تھا۔ سلطان پاس ہی خاموش، مسکین صورت لئے بیٹھ گیا۔

عورتیں گانے گاتی پہنچ چکی تھیں، بزرگ عورتوں اور دوشیزاوں سب نے بابا کے مزار کو بے شمار سلام پیش کیے، ساری عورتیں سلطان کے گرد گھوم رہی تھیں۔ شمروزئی خالہ نے آواز دی ”ڈال دو لڑکیوں! اگر کچھ پاس ہے تاکہ اللہ دل کی مرادیں پوری کرے“۔ شمروزئی خالہ کے اس اعلان پر حنائی ہاتھ اور نرم و نازک انگلیاں مزار پر پڑے رنگین دوپٹوں کی گرہوں پر ٹوٹ پڑیں۔

لیکن بدرئی دوسری عورتوں سے پرے خاموش کھڑی کبھی زمین پر بچھی سلطان کی پھٹی قمیص اور کبھی سلطان کو حیران حیران دیکھ رہی تھی۔ بدرئی کو کوئی فکر کھائے جا رہی تھی، اس کے ذہن میں عجیب عجیب خیالات ایک دوسرے کے تعاقب میں بھاگ رہے تھے۔ بدرئی سلطان کی گندمی گردن، برہنہ ہاتھوں، نحیف کمر اور سوکھے بازوؤں کو پیار سے دیکھ رہی تھی۔ بدرئی کی نظریں ابھی سلطان سے ہٹی نہیں تھیں کہ شمروزئی خالہ نے آواز دی۔ ”لڑکی تم نے تو کوئی نذر پیش ہی نہیں کی، دے دو کہ اللہ تیرے نصیب کی گرہیں بھی کھول دے“۔

بدرو کے رخسار سرخ ہوگئے، اس کی آنکھیں بھر آئیں، چہرے پر حیاء کی سرخ لکھیریں ظاہر ہوئیں، گالوں پر ہلکا پسینہ آگیا، جلدی سے اس نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپا دی، ایک قدم پیچھے ہٹ گئی، پھر آگے بڑھی اور جب دوبارہ پیچھے ہٹ رہی تھی، تو اس کی نظر سلطان کی بچھی ہوئی قمیص پر لڑکیوں کے ڈالے ہوئے آنوں اور دو آنوں پر پڑی۔ شمروزئی خالہ کی آواز ”چلو لڑکیوں، پرایا گاؤں ہے، دیر ہو رہی ہے“، بدرو کے کانوں پر ناگوار گزری۔

سلطان بھی شمروزئی خالہ کی آواز سے چونک گیا، اس نے جب غیر ارادی طور پر شمروزئی خالہ کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں شمروزئی خالہ کے چہرے کی جھریوں اور پتلی نوکیلی آنکھوں سے ٹَھکرا گئیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ سلطان کا رنگ شرم کے مارے زرد پڑ گیا، اس کے ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ پھوٹ پڑا، حیران ہوا، اوسان خطا ہوگئے لیکن خاموش رہا۔

شمروزئی خالہ کی آنکھیں غضب سے بھر گئیں، اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا لیکن پھر رک گئی۔ ایک لمحہ خاموش رہی اور پھر بدرو کی طرف مڑی اور نفرت اور طعنے سے بھرے لہجے میں بولی، ”خدا گواہ ہے کہ جب نشوں کی دلہنیں، ہرے دھوئیں کے خیالی دوپٹّے اوڑھے، حجرہ در حجرہ پھرتی رہیں، تو بدرو! تیری طرح بے شمار پھولوں جیسی خوبصورت منگیتریں جوانی میں ہی خاک ہو جائیں گی“۔

بارات چل دی، سلطان کانپنے لگا، وہ بہت دیر اپنے آپ سے کھویا ہوا تھا، جب اسے تھوڑا ہوش آیا تو عورتیں دور جا چکی تھیں، تمبل کی آواز آ رہی تھی، سلطان کی آنکھیں بھر آئی تھیں، وہ آنسووں سے بھری آنکھوں سے بارات کے پیچھے دیکھ رہا تھا، اور انگلیوں میں اپنی قمیص سے اٹھائے پیسوں کے ساتھ ایک نتھ بھی پکڑے ہوئے تھا۔
مترجم،
عامر گمریانی۔

۔ ۔
پسِ تحریر: ارباب رشید احمد خان کے افسانے کے ترجمعے کی ایک ادنی سی کوشش۔ ارباب صاحب کے پشتو افسانوں کی کتاب ”انگازے“ غالباً 1950 کی دہائی میں شائع ہوئی تھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).