آہ پروفیسر غلام اعظم آہ نورالامین


موجودہ بنگلہ ڈیش اور ماضی کے مشرقی پاکستان کے گورنر نورالامین ہوا کرتے تھے۔ وہ بنگالی ہونے کے باوجودسچے پاکستانی تھے مگر کیا ماضی کے مغربی پاکستانی اور موجودہ پاکستان کے ایک فی صد پاکستانی بھی یہ جانتے ہیں کہ نور الا مین نے پاکستان اور دوسرے لفظوں میں اسلام کی خاطر مشرقی پاکستان کے گورنر ہوتے ہوئے بھی، اپنے پورے خاندان کے ساتھ موجودہ پاکستان میں ہجرت (پناہ گزینی اختیار) کی؟

سوال یہ ہے کتنے فیصد پاکستانی مشرقی پاکستان کے سابق گورنر نورالامین کی اصل حقیقت سے واقف ہیں۔ کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ اس مرد مومن اور مرد حق کا انتقال موجودہ پاکستان میں کب ہوا۔ وہ کہاں مدفون ہے۔ اس کا خاندان اب کہاں آباد ہے یا اب وہ پاکستان میں ہے بھی یا نہیں؟

(جن کو اپنے قائد، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے خاندان تک کی خبر نہیں وہ بھلا نورالامین کے خاندان میں کیا دلچسپی رکھتے ہوں گے۔ جو اپنے قائد کی بہن، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے بھارتی ایجنٹ کہلائے جانے پر بھی ناخوش نہ ہوئے ہوں ان کو بھلا نورالامین سے کیا واسطہ ہو سکتا ہے ) ۔

ایک ایسا فرد جو لائق تھا اس بات کا کہ اسے پاکستان میں سر کا تاج بنا کر رکھا جاتا۔ وہ عزت و احترام اس کو حاصل ہوتا جو شاہوں کو حاصل ہوتا ہے اس لئے کہ وہ درندوں کے درمیان تنہا پاکستان (اسلام) کا حامی بن کر رہا اور اپنے جسم کی مٹی تک کو کسی ایسی دھرتی کے حوالے کرنے کے لئے تیار نہ ہوا جس کو حاصل تو اسلام کے نام پر کیا گیا تھا لیکن اس کو لسانیت کی بنیاد پر کاٹ دیا گیا۔

اور آخری سوال یہ ہے کہ اس مرد حق نے ہجرت کی تھی یا پناہ گزینی اختیار کی تھی، جبکہ وہ اس وقت کے مشرقی پاکستان کا گورنر تھا؟

کیا یہ مان لیا جائے کہ اسی قسم کا سلوک پاکستان میں ان تمام مردانِ حق کا مقدر ہوچکا ہے؟ خواہ ان کا تعلق مشرق سے ہو یا مغرب سے۔ وہ تمام پاکستانی جو آج تک پاکستانی ہونے کی سزا نسل در نسل بھگت رہے ہیں اور مسلمان ہونے کے باوجود بھی غیر انسانی سلوک کا شکار محض اس لئے ہیں کہ وہ پاکستان اور اسلام کی محبت کو اپنے سینے سے چمٹائے ہوئے کچھ مشرق میں (بہاری) اور کچھ مغرب میں (اہل کراچی) رہ گئے ہیں۔

گواہی کے لئے غلام اعظم جیسے لاکھوں بہاری اور موجودہ پاکستان کا رخ کرنے والے پناہ گزین (اہل کراچی) کافی ہیں؟

غلام اعظم وہاں پا بہ زنجیر رہے اور شہید کر دیے گئے اور نور الامین یہاں گمنامی کی زندگی گزار کر سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے (بیشک ہم سب کواللہ ہی کی طرف جانا ہے )۔

سوچنے کا مقام ہے ان تمام پاکستانیوں کے لئے جو آزاد تو رہنا چاہتے ہیں اور آزادی کی قدر و منزلت سے پوری طرح آگاہ بھی ہیں لیکن اُن کی قدر کرنے کے لئے تیار و آمادہ نظر نہیں آتے جن کی مسلسل قربانیوں کی وجہ سے انھیں آزادی جیسی دولت نصیب ہوئی۔ یا وہ لاکھوں بہاری و بنگالی جو اس دور ابتلا میں پاکستان اور پاک فوج کا واحد سہارا بنے جب ایک ملک لسانی عصبیت پر اسلام کی رگ گلو کاٹ رہا تھا اور ہماری پاک افواج پاکستان اور نظریہ پاکستان کو بچانے کی کوشش میں مصروف تھیں۔ جب تک وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے اور ”سابقونَ اولون“ کی اہمیت اور مرتبت کو نہیں سمجھیں گے اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں کو وہ اس منزل تک پہنچ سکیں جس کے لئے پاکستان وجود میں آیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).