قرآنی دانش کا راستہ، عروج کا راستہ


ہم گذشتہ کئی صدیوں سے دنیا میں تنزلی کا شکار ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ اخلاقی اور مادی کمزوری ہے۔ اخلاقی کمزوری کے ساتھ ساتھ طاقت کا توازن بھی ہمارے حق میں نہیں رہا۔ یہ سب ایک دم سے نہیں ہوگیا۔ انحطاط کے اس عمل کو موجودہ حالت تک پہنچنے میں پانچ سات سو سال لگ گئے ہیں۔ اس سارے عرصے کے دوران اگرچہ دنیا میں مسلمانوں کی کئی طاقت ور ایمپائر قائم تھیں لیکن کسی نے اس زوال کو روکنے کی کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی۔ نہ سلطنت عثمانیہ نے نہ مغل ہندوستان نے اور نہ ہی ایران نے اور نہ ہی مذہبی طبقے نے۔ اس حالت زار کو ختم کرنے کے لیے لائحۂ عمل میں تبدیلی ناگزیر ہے۔

ہمارے زوال کی حقیقی وجہ علم و دانش سے محرومی تھی مگر علم و دانش کے اس خلاء کو تشدد آمیز کارروائیوں اور جنگ و جدل پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ قرآن کی اصطلاح میں جہاد کا مطلب ظلم و جبر کے خلاف اسلامی ریاست کا مسلح اقدام ہے۔ اور اس کے لیے قوت ایمانی کے ساتھ ساتھ مادی قوت کے حصول کی تلقین بھی واضح الفاظ میں کی گئی ہے۔ لیکن قرآنی جہاد کے اس حکم کو قرآنی اخلاقیات سے محروم بے لگام تحریکوں سے منسلک کر کے ہم دنیا میں اخلاقی حمایت سے بھی محروم ہو گئے۔

مادی قوت کو مادہ پرستی سے منسلک کر دیا گیا اور قرآن کی اس تعلیم پر عمل کرنے کی بجائے اس کے تعویز بنا کر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی اور جہاں اسلحہ درکار ہوتا ہے وہاں بھی بخاری کے ختم شریف سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ہم نے مستقل طور پر علم و دانش، اصلاح و دعوت اور مادی تعمیر و ترقی کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ اب بھی اگر کوئی توجہ دلاتا ہے تو اس کے لیے چند چالو قسم کی گالیاں وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔

اس زوال کا نتیجے میں مظلومیت کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کے لیے جو بھی بری صورت حال پیدا ہوتی ہے اس میں مجرم ہمیں ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہم پتھر مارتے ہیں تو اس کا جواب گولی سے دیا جاتا ہے اور ظلم در ظلم یہ کہ اس کو جائز بلکہ مستحب سمجھا جاتا ہے۔

ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق اسلام ابتدا میں نامانوس تھا اور عنقریب یہ پھر پہلے کی طرح ہی اجنبی اور نامانوس ہو رہے گا۔ قرآن کا اسلام اس دور میں ایسے ہی نامانوس اور اجنبی ہو چکا ہے جیسے اپنے نزول کے دور میں تھا۔ اور اس کے پیغام کو سمجھنے والے اور اس کے سچ ہونے پر یقین کرنے والے لوگ بہت تھوڑے تھے۔ اور اس دور میں بھی ہماری فکر کا مآخذ قرآن نہیں رہا۔ ہمیں چاہیے کہ قرآن کے مفہوم کو سمجھنے میں مہارت پیدا کریں اور اس کو عمل کے ذریعے عام کریں۔ اپنے معاشروں میں پیدا ہونے والی برائیوں کو ”وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر“ کی روشنی میں دور کریں۔

یہ زوال کیسے دور ہو سکتا ہے۔

دنیا کے سیاسی، اقتصادی اور سائنسی و تکنیکی منظر پر جگہ بنانے کے لیے مسلح جدوجہد کی بجائے غیر مسلح طور پر اخلاقی جدوجہد کا آغاز کریں اس کے لیے اگر ہمیں دب کر بھی رہنا پڑے تو برداشت کریں۔ انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے اعلیٰ اخلاقی معیار قائم کریں جو دوسروں کے لیے قابل تقلید ہوں۔

ہمارے دانش مند اکٹھے ہوں اور ہر ملک کے وسائل اور صلاحیتوں کے لحاظ سے اس کے لیے ایک فیلڈ مخصوص کر دیں اور وہ ملک اس مخصوص میدان میں مہارت تامہ (ایکسی لینس) پیدا کرے اور اس طرح عالمی علم و دانش میں اپنا حصہ ڈالے۔ اگر فی الحال ہماری نیت پر شک کیا جاتا ہے تو ہم ایسے سائنسی میدان منتخب کریں جن کو صرف تعمیر کے لیے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً نینو ٹیکنالوجی، سولر ٹیکنالوجی، الیکٹرک وہیکل جیسے مضامین ایسے ہیں جو نسبتاً ابھی نئے ہیں اور ان پر بہت کام ہوسکتا ہے۔ اس طرح پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص، ان کا علاج اور نئی دوائیں بنانا بھی ایسے میدان ہیں جن پر بلا خوف و خطر کام کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی انڈسٹریوں میں افسر شاہی ٹائپ کی مداخلت کا امکان ختم کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

قرآنی اخلاقیات، مثلاً حق بات کی نصیحت، عدل و احسان، انسانی جان اور عزتِ نفس کا احترام، سفارش اور رشوت کی نفی، حُسنِ اخلاق، عفوو درگزر اور قناعت اور اعتدال جیسے اصولوں پر ذاتی اور کاروباری معاملات میں سختی سے کاربند رہیں، ہر مسلمان دوسرے کے لیے مثال بنے۔ اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ علم و دانش اور سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت ہی وہ واحد راستہ ہے جسے اپنا کر ہم مسلمانوں اور انسانیت کی تعمیر و ترقی کے بند دروازے کھول سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).