سانحہ گھوٹکی پر چپ رہنے والوں کی جان کو خطرہ ہے


ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ہر موضوع پر لکھا جائے کہیں کچھ موضوعات سے دور رہا جائے۔ کل ہی کی بات ہے کہ ہماری امی نے مشورہ دیا کہ غیرت کے نام پر قتل پر کالم لکھا جائے۔ ہم نے اپنے ہی گاؤں میں ہونے والے ایک ایسے واقعے کا ذکر کیا تو فوراً بولیں کہ مت لکھنا۔ لیکن ہمیں لگتا ہے کہ ایک بے گناہ جان کا ہم پر قرض ہے جو لفظوں سے اتارنا لازمی ہے۔ لیکن کچھ بے گناہ جانوں کا قرض ایسا ہے جو شاید اپنی جان سے اتارنا پڑے۔ اسی لئے ہم کیا سب ہی ہونٹ سیے بیٹھے رہتے ہیں۔

زندگی بہت پیاری چیز ہے۔ یہ دنیا بھی بھلے کتنے ہی غم دے کبھی اسے چھوڑ کر جانے کا من نہیں کیا۔ اس لئے کوشش کرتے ہیں کہ صم بکم بنے رہیں۔ لیکن وہ کیا ہے کہ تمام عمر بھی مٹی کا مادھو بن کر جینا مشکل ہے۔

آج صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اگر آج چپ رہے تو جان کو زیادہ خطرہ ہے۔ آج گھوٹکی میں لگی آگ کل ہم سب کو جلا کر بھسم کر دے گی۔ چودہ سال کے بچے کی شکایت پر نہ صرف ہندو مندروں میں توڑ پھوڑ کی گئی بلکہ بھری کلاس میں موجود کسی بھی دوسرے بچے یا استاد کی تصدیق کے بغیر ایک استاد کو نشانہ بنایا گیا۔ کہنے کو تو یہ وہی ہے جو ہر بار ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں ہوتا ہے؟ گھر میں بچوں کی ہر بات کو رد کر دینے والے اس قدر نازک معاملے پر یوں کیسے آگ لگانے کو تیار ہو گئے؟

معاشرے میں اس سوچ کو فروغ دیا جا چکا ہے جس کے تحت ہر وہ شخص جو ایک طاقتور طبقے سے مختلف یے ذاتی عناد پر بھی تہس نہس کیا جا سکتا ہے۔ کشمیر کے لیے آہیں بھرنے والے اب گھوٹکی میں برپا ہونے والی قیامت صغری پر یوں ہونٹ بھینچے بیٹھے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ بھارتی مظالم پر انسانی حقوق کے علمبردار بننے والے اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب میاں مٹھو کے ہرکارے جوان ہندو لڑکیوں سے زبردستی نکاح رچا کر نہ صرف انہیں مسلمان کرتے ہیں بلکہ اپنے اس ’ثواب‘ کا علی الاعلان ڈھول بھی پیٹتے ہیں۔

کبھی سلمان تاثیر کو خون کی ہولی نہلایا جاتا ہے تو کبھی مشال خان کو ایک ہجوم کی دیوانگی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ جنید حفیظ کے وکیل تک کو مار دیا جاتا ہے۔ جہاں پتنگ اڑاتے بچے یا ایک ذہنی معذور شخص کو ان دیکھے گناہ کی سزا دینا آسان ہے، وہیں ان قاتلوں کو سزا دینا جوئے شیر لانا ہے جو اللہ کے آخری رسول محمدؐ مصطفی کے نام پر انسانوں کی بلی چڑھانے پر مصر ہیں۔ جس نبیؐ پر تمام عالم درود بھیجیں اس کو اپنی عزت کے لیے ان نیم خواندہ جنونیوں کے زہریلے افعال کی ضرورت نہیں۔

گستاخی مذہب کا مقدمہ مذہب کے نام پر قانون اپنے ہاتھ میں لے کر قتل و غارت کرنے والوں پر قائم کیجئے۔ ان بے گناہوں پر نہیں جن کا جرم کسی ثبوت پر نہیں بلکہ محض اک گمان پر ثابت کیا جاتا ہے۔ یہاں رہنے والی اقلیتوں میں یہ سکت نہیں کہ وہ اپنی عبادت گاہوں کو تحفظ ہی کر پائیں۔ ان سے یہ امید کرنا کہ وہ اس وحشی اکثریت سے یوں پنگا لیں گے محض تخیل کی پرواز ہے۔

دوسری آپشن یہ ہے کہ جھنڈے میں سے سفید رنگ ختم کر دیجئے اور جناح صاحب کی تقریر سے اقلیتوں کے تحفظ کے وعدے کو حذف کر دیجئے۔ ویسے یہ کام زیادہ آسان ہے۔ آپ کو تو یوں بھی لفظوں کو آگے پیچھے کرنے پر ملکہ حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).