کیا آپ محبت کا راز جانتے ہیں؟


کیا آپ کبھی کسی کی محبت میں گرفتار ہوئے ہیں؟
کیا کبھی کوئی آپ کی محبت کا اسیر ہوا ہے؟
کیا آپ محبت کے راز سے واقف ہیں؟

جب میں اپنی تیس سالہ پیشہ ورانہ زندگی پر نگاہ ڈالتا ہوں اور ان تمام انسانوں اور جوڑوں کے بارے میں سوچتا ہوں جن کی میں نے ازدواجی اور رومانوی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کی تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے

بعض لوگوں کو محبت کے رشتے کو شروع کرنے میں دقت ہوئی
بعض لوگوں کو محبت کا رشتہ نبھانے میں دشواری پیش آئی
بعض کو غیر صحتمند رشتہ ختم کرنے میں مشکل پیش آئی

اوربعض ایک محبت بھرے رشتے کے اختتام پر اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ آئندہ نہ کسی سے محبت کرنی ہے نہ شادی۔ ان کی نگاہ میں محبت اور شادی خوشی اور مسرت کی بجائے درد ’غم اور اذیت کے نام ہیں۔

ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہنری تھے۔ جب میری ان سے ایک سال پہلے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر بہتر سال تھی۔ وہ کب کے ریٹائر ہو چکے تھے۔ انہیں دولت کا بھی کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن وہ اکیلے رہتے تھے اور احساسِ تنہائی انہیں کاٹنے دوڑتا تھا۔ ان کا کوئی دوست بھی نہیں تھا۔

میں نے ہنری کو اپنے کلینک میں انفرادی اور گروپ تھیریپی میں شرکت کی دعوت دی جو انہوں نے بڑی خوشی سے قبول کر لی۔
ایک دن میں نے ہنری سے پوچھا ’آپ کا محبت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ‘

کہنے لگے ’اب میں اس کے بارے میں نہیں سوچتا‘
’کیوں نہیں؟ ‘ میں متجسس تھا
’میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں۔ محبت تو جوانوں کے لیے ہوتی ہے۔ ویسے بھی مجھے عورتیں پسند نہیں کرتیں؟ ‘

’کیوں نہیں؟ ‘ میں نے گفتگو کو آگے بڑھانے کے لیے پوچھا
’ کیونکہ میں بورنگ انسان ہوں‘
’ مجھے تو آپ دلچسپ دکھاتے دیتے ہیں۔ ‘

’ ڈاکٹر سہیل آپ تو ڈاکٹر ہیں۔ آپ سب کا دل رکھنے کے لیے اچھی اچھی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ آپ مرد بھی ہیں۔ آپ عورتوں سے پوچھیں تو آپ کو حقیقت کا پتہ چلے‘

ہنری نے مجھے بتایا کہ وہ زندگی میں دو دفعہ شادی کر چکے تھے۔ پہلی شادی دس سال رہی اور ان کی بیوی یہ کہہ کر انہیں چھوڑ گئی کہ تم بہت بورنگ ہو۔

دوسری بیوی کو ہنری نے پندرہ سال بعد خود چھوڑا کیونکہ وہ نہ صرف بہت کنٹرولنگ تھی بلکہ ہر روز ان کی تذلیل بھی کرتی تھی۔ وہ جو کام بھی کرتے وہ اس میں ضرور کیڑے نکالتی۔

تھیرپی میں پتہ چلا کہ ہنری کا باپ بھی نہ صرف کنٹرولنگ تھا اور آمرانہ شخصیت کا مالک تھا بلکہ ہنری کو سب کے سامنے بے عزت بھی کرتا تھا۔ ہنری نے بتایا کہ جب انہیں احساس ہو گیا کہ ان کی دوسری بیوی بھی ان کے باپ کی طرح ان کی بے عزتی کرتی ہے تو انہوں نے بیوی کو طلاق دے دی اور فیصلہ کر لیا کہ اب نہ وہ کبھی محبت میں گرفتار ہوں گے اور نہ ہی شادی کریں گے۔

تھیریپی میں میں نے ہنری کو سمجھایا کہ ان کے باپ اوران کی بیویوں نے ان کی عزتِ نفس کو مجروح کیا ہے اور وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو گئے ہیں۔

احساسِ کمتری کو بہتر کرنے کے لیے میں نے ہنری سے پوچھا کہ ان کا مشغلہ کیا ہے؟

ہنری نے کہا۔ کلاسیکی موسیقی۔ ہنری نے مجھے بتایا کہ وہ تیس سال سے کلاسیکی موسیقی سے محظوظ ہوتے ہیں لیکن ان کا خیال تھا کہ بہت سے لوگ کلاسیکی موسیقی پسند نہیں کرتے۔

تھیریپی میں میں نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے شہر کے کلاسیکی موسیقی کے گروپ کا ممبر بن جائے۔

ہنری نے گروپ میں شرکت کی تو انہیں حیرانی ہوئی کہ اس گروپ کے ممبروں نے انہیں بڑے تپاک سے نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ ان کی معلومات کی وجہ سے اپنے موسیقی کے اخبار کا ایڈیٹر بھی بنا دیا۔ ہنری ہر مہینے ماہانہ نشست کی رپورٹ لکھتے جسے سب پسند کرتے۔ اس گروپ میں شمولیت سے ہنری کی خود اعتمادی بڑھنے لگی اور احساسِ کمتری میں کمی آنے لگی۔

ایک دفعہ اس گروپ کی میٹنگ ایک خاتون ممبر کے گھر میں ہوئی جن کا نام جینیفر تھا۔ جینیفر ایک ستاسی سالہ کی بزرگ خاتون تھیں۔ وہ کبھی کبھار ویل چیر استعمال بھی کرتی تھیں لیکن ان کا دل جوان تھا۔ انہیں موسیقی شاعری اور باغبانی کا بہت شوق تھا۔ ہنری نے باغبانی میں اپنے شوق کا اظہار کیا تو جینیفر نے انہیں اپنے باغ میں بلانا شروع کر دیا۔

پہلے مہینے میں ایک دفعہ۔ پھر ہفتے میں ایک دفعہ۔
پھر وہ ہنری کے لیے کھانا بھی پکاتیں اور انہیں بڑی اپنائیت سے کھلاتیں۔
ہنری اور جینیفر میں دوستی ہو گئی۔

پھر دوستی گہری ہونے لگی۔
مجھے ہنری اب خوش دکھائی دینے لگے۔

آج ہنری آئے تو ان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی شگفتگی دیدنی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی اور ہی دنیا سے لوٹے ہوں۔
میں نے جب ہنری سے پوچھا کیا جینیفر اپ کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے تو وہ ایک باکرہ لڑکی کی طرح شرمائے۔

میں نے پوچھا آپ کو کب پتہ چلا کہ آپ دونوں ایک دوسری کی محبت میں گرفتار ہو گئے ہو۔ کہنے لگے ایک دن ہم دونوں جینیفر کے باغ میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوئی۔ میں نے کہا

جینیفر اندر کمرے میں چلتے ہیں
کہنے لگیں نہیں مجھے بارش پسند ہے اندر سے دو چھتریاں لے آؤ

میں اندر سے دو چھتریاں لے آیا۔ بڑی چھترے جینیفر کو دی اور چھوٹی خود لی۔ ہم ایک گھنٹہ اس بوندا باندی میں بیٹھے رہے۔ میں بارش میں کچھ بھیگ بھی گیا۔ جنیفر نے کہا مجھے بھیگنا اچھا لگتا ہے۔ وہ نہایت رومانوی ماحول تھا۔

اگرچہ میری عمر 73 سال ہے اور ان کی 86 سال لیکن ہم دونوں سولہ سالہ نوجوانوں کی طرح ہنس کھیل رہے تھے۔ قہقہے لگا رہے تھے اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔

پھر ہم اندر آ گئے
جینیفر نے مجھ سے کہا کچھ شاعری سناؤ اور جب میں نے اسے شاعری سنانی شروع کی تو کہنے لگیں۔ ’میرا ہاتھ پکڑ کر شاعری سناؤ،
میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو میرے دل میں ایک کپکپی پیدا ہوئی۔ ایسی کپکپی جو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔

ہنری آپکی نگاہ میں محبت کا راز کیا ہے؟
کہنے لگے ’جب دو انسانوں کو محبت ہو جاتی ہے تو ان کی خاموشیاں بھی ہم کلام ہو جاتی ہیں‘ ۔
میں اور جینیفر بات نہ بھی کریں تو پھر بھی ہم جانتے ہیں کہ دوسرا کیا سوچ رہا ہے۔
میں نے دو شادیاں پہلے کی تھیں لیکن یہ میری پہلی محبت ہے۔ پہلی ہی نہیں آخری بھی۔

اس کے بعد ہنری وفورِ جذبات سے آبدیدہ ہو گئے۔
اور میں خاموشی سے ہنری کی زندگی میں خاموش انقلاب دیکھتا رہا۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail