کشمیر: آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ہونے والی ہلاکتوں کے متضاد اعداد و شمار اور وجوہات


اسرار

اسرار کی موت کے بارے میں ان کے اہلخانہ اور پولیس کے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وادی میں ہلاکتوں کی تعداد کے متضاد اعداد و شمار اور ان کی وجوہات کے بارے میں متضاد بیانات دیے جا رہے ہیں۔

بی بی سی کی یوگیتا لیمائے نے سرینگر میں پیش آنے والے بعض واقعات کا جائزہ لیا ہے۔

17 سالہ اسرار احمد خان چھ اگست کو اپنے گھر کے باہر گلی میں تھے جب انھیں زخم آئے اور چار ہفتے بعد ہسپتال میں ان کی موت ہو گئی۔

انھیں ’ذہین طالب علم‘ کہا جاتا ہے جو سپورٹس میں دلچسپی لیتے تھے۔ ان کی موت کے گرد و پیش کے حالات اس علاقے کے متنازع واقعات میں سے ایک ہے۔

ان کے والد فردوس احمد خان کا کہنا ہے کہ اسرار کو جب اشک آور گیس کے کنستر اور چھرے لگے اس وقت وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہے تھے۔ ان کے ایک دوست کا، جو اس وقت ان کے ساتھ تھے، کہنا ہے کہ ان پر انڈیا کے نیم فوجی دستوں نے شام کو جاتے ہوئے فائر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’آنسو گیس شیل سے زخمی ہونے والا نوجوان چل بسا‘

آرٹیکل 370 کا خاتمہ: کیا مسئلہ کشمیر حل ہو چکا ہے؟

کشمیر میں صحافیوں کے لیے کام کرنا ’تقریباً ناممکن‘

اسرار کی طبی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی موت چھروں کے لگنے اور اشک آور گولے کے پھٹنے سے ہوئی ہے۔ لیکن کشمیر میں انڈیا کے اعلیٰ فوجی کمانڈر لفٹیننٹ جنرل کے جے ایس ڈھلن کا کہنا ہے کہ اسرار کی موت ایک پتھر کے لگنے سے ہوئی جو بظاہر کشمیری مظاہرین نے مسلح فوج پر پھینکے تھے۔

سرٹیفیکیٹ

طبی سرٹیفیکیٹ میں اسرار کی موت چھرے لگنے سے بتائی گئی ہے

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بھی اس بیان کی حمایت کرتے ہیں۔ انھوں نے ہسپتال کی رپورٹ کو مبہم قرار دیا ہے اور کہا کہ اس کی مزید جانچ ہونے کی ضرورت ہے۔

یہ واقعہ انڈیا کے اس اعلان کے دوسرے دن رونما ہوا جب حکومت نے اس خطے کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اس کو مرکزی حکومت کے زیر نگرانی دو خطوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

اس اچانک اعلان سے چند دن قبل انڈیا نے مختلف اقدامات میں وہاں ہزاروں اضافی فوجی تعینات کی، ہندوؤں کی ایک اہم زیارت کو منسوخ کیا، سکول کالجز کو بند کر دیا، سیاحوں کو وہاں سے نکل جانے کے لیے کہا گیا، ٹیلیفون اور انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی گئیں اور اس علاقے کے سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا گيا۔

سکین

اسرار کے سر کا ایکسرے جس میں چھروں کے واضح نشانات ہیں

اب اسرار کے گھر والوں کا سب سے قیمتی اثاثہ ان کے میٹرک کی مارک شیٹ جس میں انھوں نے 84 فیصد مارکس حاصل کیے تھے اور ایک پرانے اخبار میں شائع ہونے والی ان کی وہ تصویر ہے جس میں انھیں کرکٹ ٹرافی دی جا رہی ہے ہے۔

اسرار کے والد نے بی بی سی سے پوچھا: ’کیا (انڈیا کے وزیر اعظم) مودی ہمارا درد محسوس کر سکتے ہیں؟ کیا انھوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے؟ کیا انھوں نے اس کی مذمت کی ہے؟‘

انھوں نے مزید کہا ’کل مزید اموات ہوں گی۔ آج کشمیر میں کوئی احتساب نہیں ہے۔‘

سرٹیفیکیٹ

اسرار کی دسویں کلاس کی مارک شیٹ

حکومت ہند کا کہنا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد سے سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ اسرار سمیت دو افراد حکومت مخالف مظاہرین کے پتھروں سے ہلاک ہوئے ہیں۔

حکومت کے مطابق تین دوسرے افراد بھی ہلاک ہوئے ہیں جن میں ترال علاقے میں دو خانہ بدوش چرواہے اور سرینگر کے ایک دکاندار شامل ہیں، جنھیں مسلح شدت پسندوں نے ہلاک کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق 60 سالہ غلام محمد اپنی اہلیہ کے ساتھ 29 اگست کی شام کو اپنی دکان کے اندر بیٹھے ہوئے تھے جب تین افراد نے گولی مار کر انھیں ہلاک کر دیا اور پھر وہ موٹر سائیکل پر فرار ہو گئے۔

ان کی موت کے بارے میں یہ قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ ان کی موت اس لیے ہوئی کہ انھوں نے شدت پسند گروہوں کی تنبیہ پر دھیان نہیں دیا اور اپنی دکان کھولی۔

کشمیر کے ڈی جی پولیس دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ شدت پسند گروہوں نے دکانیں، پٹرول سٹیشن اور بینک بند رکھنے کے لیے پمفلٹ تقسیم کیے تھے۔

بی بی سی نے غلام محمد کے گھر کا دورہ کیا لیکن ان کے اہلخانہ اس قدر سہمے ہوئے تھے کہ انھوں نے بات نہیں کی۔ پولیس نے ہمیں بتایا کہ اس قتل کی تحقیقات جاری ہیں۔

لیکن دوسرے لوگوں نے بتایا کہ حکومت کے ’سرکاری اعداد و شمار‘ حالیہ دنوں میں ان کے پیاروں کی غیر فطری موت کو شمار میں نہیں لاتے۔

مظاہرے

قید و بند کے باوجود کشمیر میں بعض اوقات حکومت اور سکیورٹی کے خلاف مظاہرے نظر آئے ہیں

ان میں سے ایک رفیق شاگو ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ فہمیدہ بانو کے ساتھ سرینگر کے بیمینہ علاقے میں اپنے دو منزلہ مکان میں نو اگست کو چائے پی رہے تھے جب مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پڑوس میں تصادم شروع ہو گیا۔

انھوں نے بتایا کہ اشک آور گیس کے دھواں، جو عام طور پر سکیورٹی فورسز مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں، ان کے گھر میں بھر گیا اور ان کی اہلیہ 34 سالہ فہمیدہ کا دم گھٹنے لگا۔

’اس نے کہا کہ اسے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہے۔ اس لیے ہم اسے لے کر ہسپتال بھاگے۔ وہ مجھ سے پوچھتی رہی کہ مجھے کیا ہو رہا ہے، وہ بہت خوفزدہ تھی۔ ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی لیکن اسے بچا نہیں سکے۔‘

فہمیدہ بانو کی طبی رپورٹ میں ان کی موت کی وجہ زہریلی گیس کا سانس میں جانا بتائی گئی ہے۔ ان کے شوہر اب عدالت میں اپنی اہلیہ کی موت کی جانچ کے بارے میں عرضی داخل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سرینگر کے صفا کدل علاقے میں 60 سالہ محمد ایوب خان کی موت بھی فہمیدہ بانو جیسے حالات میں ہوئی تھی۔

ایوب خان کے دوست فیاض احمد خان نے کہا کہ 17 اگست کو وہ اس علاقے سے گزر رہے تھے جب تصادم شروع ہو گيا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ایوب خان کے پاؤں کے پاس آنسو گیس کے دو کنستر گرتے دیکھے۔ ان کے دوست کو فوراً ہسپتال لے جایا گیا لیکن ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کی موت پہلے ہی ہو چکی تھی۔ اہلخانہ کو کوئی طبی رپورٹ نہیں دی گئی ہے۔

بند

پولیس نے ہمیں بتایا کہ ایوب خان کی موت اشک آور گیس کے دھویں سے ہونے کی باتیں افواہیں ہیں۔

علاقے کی ناکہ بندی اور اکثر و بیشتر کرفیو جیسی صورتحال کے نفاذ کے باوجود حکومت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں جو اکثر پرتشدد تھے۔

ہسپتال اس بارے میں خاموش ہے کہ ان کے یہاں کتنے متاثرین لائے گئے ہیں۔ زخمی ہونے والے بہت سے لوگوں نے علاج کے لیے باقاعدہ ہسپتالوں کا رخ نہیں کیا کیونکہ انھیں خوف ہے کہ انھیں مظاہروں میں شرکت کے لیے حراست میں لے لیا جائے گا۔

کہا جاتا ہے کہ حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں سرگرم کارکنوں، مقامی سیاستدانوں اور تاجروں کو حراست میں لے رکھا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو اس علاقے سے باہر کی جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنے لوگ اب تک ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ کشمیر میں پہلے کے مقابلے میں بدامنی کی سطح کم رہی ہے۔

گورنر ستیا پال ملک نے نامہ نگاروں کو بتایا ’یہ سنہ 2008، 2010 اور 2016 کی بدامنی کے برعکس ہے جس میں وسیع تعداد میں لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔‘

انھوں نے مزید کہا ’تمام سکیورٹی فورسز نے رات دن اس بات پر محنت کی ہے کہ لوگوں کو نقصان پہنچائے بغیر رفتہ رفتہ معمول کی زندگی کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔‘

بہت سے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ مواصلات کی معطلی اور فوج کے سخت اقدامات ایک بڑی وجہ ہیں کہ عوام کے غصے کو صحیح معنوں میں نہیں دیکھا جا سکا۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ کشمیر میں عائد پابندیاں پوری طرح سے کب ختم ہوں گی اور جب ایسا ہو گا تو پھر کیا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp